نظام کا بحران اور کلیسائی فاشزم

Posted by:

|

On:

|

,

انقلابی سوشلسٹ موومنٹ

سیالکوٹ میں جس طرح بلاسفیمی کے نام پر ایک سری لنکن شہری پریانتھا کمار کو جلایا گیا ہے۔ یہ ظلم اور بربریت کی انتہاء ہے اسی طرح کا واقعہ چند سال پہلے بھی پیش آیا تھا جب ایک طالب علم مشال خان کو وحشیانہ اندازمیں قتل کیا گیا تھا۔ کچھ دن پہلے ہی چارسدہ میں پولیس اسٹیشن کو آگ لگا ئی گئی تھی اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔
حکمران طبقہ اور ریاست نے پچھلے عرصے میں ٹی ایل پی کے پر تشددطریقہ کار کو اپنے مفاد میں استعمال کیا ہے اسی لیے ایک وفاقی وزیر نے پریانتھا کمارکی لنچنگ پر کہا کہ نوجوان جذباتی ہوگے تھے۔ نظام کے شدید بحران کی وجہ سے حکمران طبقہ کی طرف سے مذہب کااستعمال بڑھ گیا ہے۔جس کے نتیجے میں کلیسائی فاشزم تیزی سے پھیل رہاہے۔
یہ سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات اور بحران ہے جو عدم برداشت کو جنم دے رہا ہے اور ایک پاگل پن سماج پر حاوی ہورہا ہے لیکن یہ پاگل پن اس نظام کے بحران کا منطقی نتیجہ ہے۔
سرمایہ دارانہ ترقی (سرمایہ داروں کا منافع) کا بلبلہ پھٹ گیا ہے۔نومبر میں تجارتی خسارہ 5ارب ڈالر ہوا ہے، ڈالر 177روپے کا ہوگیا ہے۔سٹاک مارکیٹ میں ایک دن 2134 پوائنٹ کی کمی ہوئی ہے۔
350ارب کی ٹیکس چھوٹ ختم اور ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی جارہی ہے، شرح سود میں ایک بار پھر اضافے کا امکان ہے۔ پیڑول کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے اور ایک ماہ میں مہنگائی 9.3سے بڑھ کر 11.3ہوگی ہے۔اس سب کے باوجود امکان یہی ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 15ارب ڈالر سالانہ تک چلاجائے گا جس کے نتیجہ میں روپیہ کی بے قدری مزیدتیز ہوجائے گی۔
اس سب کی وجہ عمران حکومت کی وہ مالیاتی پالیسیاں ہیں جس سے بڑے سرمایہ داروں نے کویڈ 19کے دوران کھربوں روپیہ کا منافع حاصل کیا ہے۔یہ اس حکومت اور ریاست کے طبقاتی کردار کو ظاہر کرتا ہے یہ سرمایہ داروں کا مفاد ہے جس کے لیے ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے۔ حکومت اب بھی پاور سیکٹر اور دیگر سرمایہ داروں کو نواز رہی ہے اور اس کا بوجھ محنت کشوں اور غریبوں ڈالا جارہا ہے۔
لیکن حکمران طبقے کے حملوں اور نظام کے مسائل کے خلاف مزاحمت بھی ہے جیسے گوادر میں عام لوگ اپنے مسائل پر جدوجہد کررہے ہیں اسی طرح کچھ دن پہلے اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے ٹیچرز اور مختلف محکموں کے ملازم احتجاج کررہے تھے۔واپڈا ورکرز اور ریلوے کے محنت کش بھی نجکاری کے خلاف متحرک ہیں۔ تمام تر جبر و کنٹرول کے باوجود صنعتی علاقوں میں غصہ اور نفرت پھیل رہی ہے۔
اپوزیشن سڑکوں پر احتجاج کرنے کی بجائے اسٹبلشمنٹ سے مذاکرات میں مصروف ہیں کیونکہ اس کے لیے سرمایہ داروں کا مفاد عزیز ہے یہ سرمایہ داروں کوسستی بجلی،گیس اور دیگر مراعات دینے پرمتفق ہیں۔اس لیے احتجاج سے گریز کررہے ہیں اور انہوں نے احتجاج نہ کرنے کے لیے لانگ مارچ کی کال مارچ کے ماہ کی دی ہے۔
نظام کے تضادات کے نتیجے میں ریاست کے تمام ادارے بے نقاب ہوگئے ہیں اور ان کا تقدس ختم ہورہاہے یعنی وہ جن کو مقدس بناکرپیش کیا جاتا تھا وہ آج آڈیو اور ویڈیو کی وجہ سے ذلیل ہورہے ہیں۔ان حالات میں معیشت کے گہرے ہوتے ہوئے بحران میں سرمایہ کے مفاد میں پالیسیوں کو جاری رکھنے کے لیے حکمرانوں کے پاس وحشت اور بربریت ہی حل ہے۔ سماج میں کلیسائی فاشزم کی طاقت میں اضافہ ہواہے اور وہ تمام ترتشدداور قتل وغارت کے باوجود کنگ میکر ہونے کا دعوع کررہے ہیں۔یہ ایک خوفناک منظر پیش کررہا ہے۔ لوئر مڈل کلاس اور نچلی پرتوں میں وحشت بڑھ رہی ہے اور نظام کا بحران اس میں اضافہ کررہاہے۔ حکمران طبقہ کے پاس سماج پر تسلط برقرار رکھنے کے لیے اب فاشزم ایک اہم آپشن ہے یعنی ایک بدترین عہد ابھر رہا ہے۔
ان حالات میں عوامی تحریکوں کو پھیلانا ہوگا اور انہیں باہم منسلک ہو کر اس نظام کا متبادل دینا ہوگا اور یہی سماج میں کلیسائی فسطائیت کے کردار میں تیزی سے ہونے والے اضافہ کو روک سکتی ہیں لیکن اس کے لیے انہیں بحران کے خلاف جدوجہد کرنی ہوگی اور محنت کش طبقہ کو بحران کا حکومتی حل اور متبادل دینا ہوگا جو سرمایہ داری نظام سے ٹکراؤ میں آئے اور اس کے خاتمے کی جدوجہد کرے۔