تحریر:دلارا لورین
ترکی میں 31 مارچ کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات ریپبلکن پیپلز پارٹی کی جیت کے ساتھ ختم ہوئے جس کی بنیاد کمال اتاترک نے رکھی تھی جب کہ صدر رجب طیب اردگان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو نمایاں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
میئر کی کل 81 نشستوں میں سے سی ایچ پی نے 31 اور اے کے پی نے 24 نشستیں جیتیں۔ سی ایچ پی نے ملک کے پانچ بڑے شہروں بشمول استنبول، انقرہ اور ازمیر میں بھی کامیابی حاصل کی۔ ماضی میں ان شہروں میں انتخابات جیتنے کے بعد اردگان نے کہا تھا”جو بھی استنبول اور انقرہ جیتے گا ملک اس کے ہاتھ میں ہوگا“۔آج صورت حال بدل گئی ہے اور ”باسپورس کا مضبوط آدمی“ان طاقت کے مراکز کو کھو چکا ہے۔سی ایچ پی کی کامیابی بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن تھی۔
اردگان کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے ایک سال سے بھی کم عرصے بعد ان کی مقبولیت کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے ووٹروں نے انہیں اور ان کی موجودہ پالیسیوں کو مسترد کر دیا ہے۔ خاص طور پراستنبول میں سی ایچ پی کے یکریم کے دوبارہ انتخاب میں پہلے سے بھی زیادہ فرق کی وجہ سےاے کے پی کی ناقابل تسخیر ساکھ ہلا کر رہ گی۔
بڑھتی ہوئی عوامی ناراضگی
ملک کی معاشی صورتحال عالمی معاشی بحران، کورونا وائرس کی وبااورگزشتہ سال 6 فروری کو آنے والے تباہ کن زلزلے اور تعمیراتی صنعت کے زوال کے اثرات سے بمشکل سنبھل پائی ہے۔ اردگان کی اقتصادی پالیسی اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے عدم استحکام کی وجہ سے اسکے زوال میں اضافہ ہوا ہے۔ فروری میں مہنگائی کی شرح 67فیصد تھی جس کی وجہ سے محنت کش طبقے کے زیادہ تر خاندانوں کے لیے بنیادی اشیائے خوردونوش کی خریدی بھی بہت مشکل ہوگی تھی۔
مسلسل خراب معاشی صورتحال متوسط طبقے کو بھی متاثر کر رہی ہے اور اس سے روزگار کے عدم تحفظ اور مکمل بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران اردگان نے اپنی تقریروں میں ایک مضبوط معیشت اور مستقبل کے لیے مثبت حالات کا وعدہ کیا۔ تاہم اعداد و شمار پر گہری نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہر گزرتے مہینے کے ساتھ غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 17,000ٹی ایل (487 یورو) کی موجودہ کم از کم اجرت چار افراد کے خاندان کے لیے پہلے ہی 20,098 ٹی ایل کی غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے ایک کمانے والا اب ایک خاندان کا پیٹ پالنے کے قابل نہیں ہے۔
مارچ میں بلدیاتی انتخابات کے مہینے میں بھوک اور غربت کی حد سے نیچے زندگی گزارنے والوں کے تناسب میں بالترتیب 5.9 فیصد اور 11 فیصد اضافہ ہوا۔ بھوک کی حد چار افراد کے خاندان کے لیے متوازن خوراک کے لیے کھانے پر کم سے کم اخراجات کی نمائندگی کرتی ہے۔ غربت کی حد ایک ایسا اعداد و شمار ہے جو چار افراد کے خاندان کے کم از کم اخراجات کو بیان کرتا ہے۔
یہ تشویشناک خبر کنفیڈریشن آف پبلک سروس یونینز نے مارچ میں شائع کی تھی۔ پنشنرز اردگان اور اے کے پی کے ووٹر بیس کا ایک اہم حصہ رہے ہیں اور ان کی صورتحال بھی ابتر ہوئی ہے۔ ڈیسک ٹریڈ یونین کے مطابق اوسط پنشن وسطی یورپی ممالک میں پنشن کا چھٹا حصہ ہے۔ کم از کم اجرت کے مقابلے میں 2002 میں ترکی میں پنشن 22فیصد زیادہ تھی۔ 2023 میں تاہم یہ تقریباً 26% کم تھی۔
تاہم اے کے پی کی شکست کی ایک وجہ نیو ویلفیئر پارٹی کے دائیں بازو کے قدامت پسندوں سے مقابلہ بھی تھا جس نے ماضی میں مذہبی بنیادوں پر حمایت حاصل کی تھی۔ معاشی بدحالی کی وجہ سے اس کے ووٹرز اے کے پی سے منہ موڑ رہے تھے حالانکہ صدارتی انتخابات میں یہ اردگان کے ”عوامی اتحاد” کا حصہ تھی ان انتخابات میں اس نے اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے اوراس نے 6فیصد ووٹ حاصل کیے اور یوزگٹ اور سنلیورفا کے شہروں میں انتخابات جیتے ہیں۔
جن امیدواروں نے اے کے پی کو چھوڑ دیایا انتخابات میں انہیں ٹکٹ نہیں ملی انہوں نے نیو ویلفیئر پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس لیے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مایوسی کا شکار اے کے پی کے ووٹرز جنہوں نے سی ایچ پی کو ووٹ نہیں دیئے ہیں تو انہوں نے ویلفیئر پارٹی کوووٹ دالے۔ نیو ویلفیئر پارٹی نے اے کے پی کے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی تعلقات کی بھی مذمت کی اور اس طرح اسلامی نقطہ نظر سے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر بہت سے ووٹ بھی حاصل کئے۔
ڈی ای ایم کردوں کی طرف سے خوشی کی پکار
ڈی ای ایم پارٹی (پیپلز پارٹی فار ایکویلیٹی اینڈ ڈیموکریسی)، جسے دسمبر 2023 سے پہلے (پیپلز ایمنسیپیشن اینڈ ڈیموکریسی پارٹی) کہا جاتا تھا اور اس سے پہلے (پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی) نے بنیادی طور پر کرد صوبوں میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس نے 10 اضلاع میں میئر کا عہدہ جیتا ہے جس سے یہ ملک کی چوتھی مضبوط پارٹی بن گئی۔ ڈی ای ایم 65 سے زیادہ کاؤنٹیوں، اضلاع اور میونسپلٹیوں میں ایک مضبوط ترین قوت کے طور پر ابھری ہے۔ اس جیت پر خاص طور پر کرد علاقوں میں بہت خوشی ہے اور پارٹی کی حمایت اورووٹوں میں اضافہ ہوا ہے حالانکہ پارٹی کو نام تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا،اسے پابندی کی دھمکیاں کا سامنا تھا، اس کے کارکنوں کو سزائیں اور شدید جبر کی دیگر شکلوں پرعمل کیا گیا۔
مانیسا، مرسین اور ازمیر کے ساتھ ساتھ استنبول کے بہت سے اضلاع اور دیگر مقامات پر ڈی ای ایم پارٹی نے سی ایچ پی کے ساتھ بات چیت کے بعداپنے امیدواروں کو نامزد نہیں کیا جہاں سی ایچ پی مضبوط تھی۔ کم تر برائی کی حمایت کی پالیسی ڈی ای ایم پارٹی کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اس سے وہ اپنے ووٹرز میں سی ایچ پی کے حوالے سے خوش فہمی کو جنم دیتی ہے۔ سی ایچ پی نے اے کے پی کی حمایت کی تاکہ کے ممبر آف اسمبلی کے استثنیٰ کو ختم کیا جا سکے جس کی وجہ سے ان کے بہت سے لوگوں کو جیل میں ڈالا گیا جس میں ان کے شریک چیئرمین صیلاحتن ڈیمر ٹس بھی شامل تھے۔
سی ایچ پی ایک لبرل دھوکا
یہ کرد عوام پر ظلم کی حمایت کرنے کی طویل تاریخ رکھتی ہے۔ قوم پرست اور بورژوا رجحان کی وجہ سے اس جماعت کو کسی بھی طرح ترقی پسند نہیں کہا جا سکتاہے۔
اگرچہ یہ بات قابل فہم ہے کہ محنت کشوں سمیت بہت سے لوگ 31 مارچ سے 1 اپریل 2024 کی درمیانی رات سڑکوں پر آکراے کے پی کی شکست کا جشن منا رہے تھے لیکن سی ایچ پی کی جیت بائیں بازو اور انقلابی قوتوں کے لیے جشن کا باعث نہیں بننی چاہیے ہے۔ سی ایچ پی نے مئی 2023 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں مہاجرین اور سیاسی پناہ کی کوشش کرنے والوں کے خلاف اپنے نسل پرستانہ اور اشتعال انگیز تبصروں اور مطالبات کی وجہ سے پہلے ہی توجہ مبذول کرائی تھی یہاں تک کہ تیس لاکھ افراد کو فوری طور پر ملک بدر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اردگان سے زیادہ رجعتی موقف اختیا کیا تھا۔
۔2024 کے مقامی انتخابات کے لیے اس کے انتخابی پروگرام میں دیگر چیزوں کے علاوہ یہ کہا گیا ہے کہ مہاجرین اور سیاسی پناہ کی کوشش کرنے والوں کی واپسی کو ممکن بنانے کے لیے”قابل اعتماد“این جی اوز کے ساتھ قریبی تعاون کیا جائے۔ اسی پروپیگنڈے کے نتیجے میں مہاجرین پر ہر روز سڑکوں پر حملہ کیا جاتا ہے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ کارروائیاں اکثر قتل پر ختم ہوتی ہیں۔ بالواسطہ انتخابی حمایت جو ڈی ای ایم پارٹی نے بائیں بازو کی حزب اختلاف کے طور پر اپنے امیدوار کھڑے نہ کر کے سی ایچ پی کو فراہم کی ہے اس پر تنقید کی جانی چاہیے اور یہ اس کی سیاست کے پیٹی بورژوا کردار کو ظاہر کرتا ہے۔
وان اور دیگر شہروںکامیابی
۔2019 کے بلدیاتی انتخابات میں ایچ ڈی پی نے 65 میونسپلٹی جیتی تھیں اس دفعہ بھی ڈی ای ایم اپنی بنیاد کو قائم رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ تاہم5 سال پہلے اس کی کامیابیوں کے بعدحکومت نے 48 میونسپلٹیوں کے میئرز کو ہٹا دیا اور ان کی جگہ اے کے پی سے منسلک منتظمین کو لایا گیا اور اس طرح ریاست کے زیر انتظام زبردستی نظام چلایا گیا۔
اس سال بھی کرد صوبوں میں ڈی ای ایم کی کامیابی کو حکومت نے 2 اپریل کے اوائل میں چیلنج کیا تھا۔ درحقیقت انتخابی دھاندلی اور ووٹوں کی دھاندلی حکومت کی جانب سے انتخابات کے دوران پہلے سے ہی کی جا رہی تھی۔ ڈی ای ایم کے مطابق 46,000 ریاستی ملازمین نے جن میں بنیادی طور پر پولیس افسران اور سپاہی شامل ہیں نے کرد علاقوں میں اپنا ووٹ ڈالا ہے حالانکہ وہ ان جگہوں سے تعلق نہیں رکھتے تھے لیکن حکومت نے انہیں وہاں منتقل کیا گیا تھا تاکہ ان کے ووٹ کو اپنے حق میں استعمال کرسکے۔
۔2 اپریل کی صبح حکومت نے ڈی ای ایم پر پہلا حملہ کیا۔ وان میں منتخب ڈی ای ایم سیاست دان عبداللہ زیدان جیتا لیکن اے کے پی کے امیدوار عبدالاحد ارواس جو ہار گے تھے انہیں تقرری کا سرٹیفکیٹ پیش کیا گیا۔ ترک حکومت نے زیدان سے ان کے شہری حقوق چھین لیے تھے جو انھیں 2016 میں ایچ ڈی پی کے نائب کے طور پر گرفتار ہونے اور پانچ سال جیل میں گزارنے کے بعد گزشتہ سال ہی دوبارہ حاصل ہوئے تھے۔ وان وہ صوبہ ہے جہاں ڈی ای ایم نے تمام اضلاع میں اکثریت حاصل کی جو کہ اے کے پی کے بیوروکریٹک اور غیر جمہوری کردار کو مزید واضح کرتا ہے۔ لوگ اس حملے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
ڈی ای ایم پارٹی نے فوری طور پر اس کے خلاف احتجاج کی کال دی اور اپنی پریس ریلیز میں کہا کہ ووٹروں کی رائے کا احترام کیا جانا چاہیے۔ ڈی ای ایم پارٹی کے شریک چیئرمین نے وان میں ایک تقریر میں کہا”وان کردستان کا دل ہے اور وان کے لوگوں نے نوروز (کرد نئے سال) پر انتخابات کے دوران اور آج یہاں اس چوک پر واضح کر دیا ہے کہ کردوں کے آزادی اور جمہوریت کے مطالبے کو تشدد اور جبری طور پرانتظامیہ نہیں دبا سکتی ہے۔یہ دو انتخابی ادوار سے ہمارے ٹاؤن ہالز کو زبردستی ٹرسٹیز کے زیر انتظام چلاتے رہے اور اب عوام کی مرضی کوسیاسی اور قانونی سازش کے ذریعے ختم کیا جارہا ہے۔ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ یہ بغاوت کامیاب نہیں ہوگی کیونکہ ہم جبر، دھاندلی اور آنسو گیس کے باوجود ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم ان 14 ٹاؤن ہالز کا دفاع کریں گے جو ہم نے صوبہ وان میں جیتے ہیں۔
اسی دن پارٹی کی ایگزیکٹو کا ایک خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں سی ایچ پی کے نائب سیزگین تنرکولو نے بھی شرکت کی۔ سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور ہزاروں لوگ احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر آگے۔ وان میں زیادہ تر دکانیں بند رہیں۔ ریاست نے بڑے پیمانے پر تشدد اور جبر کے ساتھ جواب دیا اور ڈی ای ایم پارٹی کے دفاتر پر دھاوا بول دیا۔ تاہم احتجاج تیزی سے دیگر شہروں میں پھیل گیا۔
احتجاج کا پھیلاؤ اور حکومت پر جو دباؤ ڈالا گیا وہ کامیاب رہا3 اپریل بروز بدھ،ہائی الیکشن کمیٹی جس نے پہلے اے کے پی امیدوار کی کامیابی کا اعلان کیا تھااس نے ڈی ای ایم پارٹی کے اعتراض پر فیصلہ سنایا اور زیدان کی انتخابی فتح کو تسلیم کرلیا۔.
ایک چنگاری بھڑک اٹھی ہے۔
مظاہروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کرد عوام اس ملک میں اپنی طاقت سے واقف ہیں تاہم یہ اے کے پی کی کمزوری اور آبادی میں اس کی حمایت کی کمی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ پچھلے انتخابات2016 میں حکومت نے اکثریتی کرد میونسپلٹی میں میئروں کو برطرف کر دیا اور ان کی جگہ زبردستی اپنے امیدواروں کو تعینات کیا تو شدید احتجاج ہوالیکن اسے خونریزی سے دبا دیا گیا۔ سخت ترین جبروتشدد کے ساتھ شہروں میں کرفیو لگا دیا گیا صحافیوں کو رسائی سے روک دیا گیا اور 200 سے زائد افراد کو قتل کیا گیا تھا۔
وان میں ڈی ای ایم کے منتخب میئر کو ہٹانے کی کوشش جبر کی مشینری کی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی ایک اور کوشش تھی تاہم یہ حقیقت کہ اسے ایک دن کے اندر واپس لے لیا گیا اس خدشے کی وجہ سے کہ احتجاج پھیل سکتا ہے یعنی بغاوت کی چنگاری دوسرے علاقوں اور پورے کردستان تک پھیل سکتی ہے۔
احتجاج نہیں رکنا چاہیے کیونکہ اگلے انتخابات اب 4 سال کے بعد ہوں گے۔ اس دوران ریاست اپنے پرتشدد اور جابرانہ اقدامات کو جاری رکھ سکتی ہے۔ ایک بات واضح رہے کہ ترک ریاست کے اداروں پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے ہے۔
ایک عوامی جماعت کے طور پر ڈی ای ایم پارٹی موجودہ احتجاج کو وسعت دے کر اس جدوجہد میں قائدانہ کردار ادا کر سکتی ہے۔ اصلاح پسندیا ریڈیکل بورژوا پارٹیاں بھی پارلیمنٹ اور دیگر اداروں میں محض نشستیں جیتنے سے زیادہ کچھ کر سکتی ہیں۔ انہیں انتخابی ہ کا استعمال عوامی تحریکوں اور ان کے مطالبات کی تشہیر کے لیے کرنا چاہیے موجودہ مظاہروں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے اور انھیں ملک بھر میں مزید پھیلانا چاہیے ہے۔
بحرانوں، غربت اور جبر کے خلاف ٹریڈ یونینوں کے قیمتوں میں اضافے کے خلاف فوری پروگرام کے لیے، کم از کم اجرت اور کم از کم پنشن کے لیے ملک بھر میں جدوجہد کرنے کے لیے دباؤ میں لاناچاہیے جوزندگی گزارنے کے اخراجات کو پورا کرتی ہے اور کرایہ اورمہنگائی کے مطابق اسے میں اضافہ ہو۔ اس تحریک کو ٹریڈ یونینوں اور اجرت کمانے والوں کی کمیٹیوں کے ذریعے کنٹرول کیا جانا چاہیے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے بڑے پیمانے پر سیاسی ہڑتالیں ضروری ہیں۔ جن میں عام ہڑتالیں اور مقامی ایکشن کمیٹیوں کے زیر اہتمام بڑے مظاہرے شامل ہیں۔ ریاست اور انتہائی دائیں بازو کے جبر اور اشتعال انگیزیوں کے خلاف دفاعی کمیٹیوں کو تشکیل دینا چاہیے۔
مظلوموں اور محنت کشوں کی ایک مضبوط تحریک ہی حکومت کی مستقبل کی سازشوں،معاشی بحران، جبر اور غربت کے خلاف کھڑی ہوسکتی ہے۔ ایک طاقتور تحریک بنانے کے لیے ملک کے مغرب میں معاشی طور پر مضبوط شہروں سے محنت کشوں اور مظلوموں کو بھی شامل کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ڈی ای ایم،ٹریڈ یونینوں، سماجی تحریکوں اور بائیں بازو کی جماعتوں کا ایک متحدہ محاذ بنانا ہوگا۔.
پارٹی کی پالیسیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے سی ایچ پی کے ایکٹوسٹوں پر بھی واضح کرنا چاہیے کہ پارٹی کیسے آبادی کو تقسیم کرنے کے لیے نسل پرستی کا استعمال کرتی ہیں اور اس کے قوم پرست رجحان کے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ تاہم سب سے بڑھ کرٹریڈ یونینوں کو جدوجہد میں شامل کیا جانا چاہیے – حکومت کے ساتھ حقیقی تصادم میں ان کا کلیدی کردار ہوگا۔
جبر کے خلاف مظلوم اور محنت کشوں پر مشتمل دفاعی کمیٹیاں بنانے کی ضرورت ہے جو پارٹی عمارتوں اور جیتے ہوئے ٹاون ہالز کا دفاع کرسکیں۔ترکی طویل عرصے سے بحران کا شکار ہے اورکس بھی وقت عوام مزید غربت، بھوک اور نسل پرستی کے اُٹھ سکتے ہیں۔ حکومت کے خلاف تحریک کو سی ایچ پی سے کوئی امید نہیں ہونی چاہیے اور اسے محنت کشوں کے ساتھ ملک کے مظلوموں کو متحد کرنا چاہیے۔ کام یہ انقلابی پروگرام کی بنیاد پر انقلابی محنت کشوں کی پارٹی ہی کرسکتی ہے۔