تحریر:عمران جاوید
بجلی کے بلوں میں اضافہ کے خلاف ایک سال سے جاری تحریک میں ایک بڑا بھار جنم لے چکا ہے اور اس وقت لاکھوں لوگ راولاکوٹ میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی قیادت میں موجودہیں جبکہ دیگر شہروں میں بھی لاکھوں لوگ مظفرآباد جانے کے لیے قافلوں کی شکل میں اکھٹے ہوچکے ہیں۔
ایک سال سے جاری اس تحریک کو مذاکرات کے نام پر مسلسل دھوکا دیا جاتا رہا ہے جس کے خلاف جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے 11مئی کو مظفرآبادکی طرف لانگ مارچ کی کال دی تھی۔پچھلے سال مئی میں بجلی کے بلوں کے خلاف تحریک کا آغازپونچھ سے ہوا،پونچھ حالیہ برسوں میں سستے آٹے اور سستی بجلی کے لیے شروع ہونے والی تحریکوں کا مرکز رہا ہے جبکہ مظفر آباد اور میرپور میں ان تحریکوں کا اثر محدود ہی رہا ہے۔اس دفعہ بجلی کے بلوں میں اضافہ کے خلاف احتجاجی تحریک کااثر مظفرآباد اور میر پور میں بھی محسوس کیا جارہا تھا اور سال بھر میں جوئنٹ ایکشن کمیٹی پاکستانی زیرانتظام کشمیر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور دیہات میں منظم ہوگی اور یہ ہر ماہ یہ بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کے لیے احتجاج کرتے رہے ہیں۔جس کی وجہ سے بڑی تعداد نئے نوجوان سیاست اور مقامی سطح پر قیادتی کردار میںآئے۔
لانگ مارچ کے فیصلہ اور اس کی تیاری میں عوامی جوش وجذبہ کو محسوس کرتے ہوئے پاکستانی زیرانتظام کشمیر کے حکمران خوف ذدہ ہوگے اور انہوں نے حکومت پاکستان سے ایف سی اور پی سی کے جتھے بھیجنے کی درخواست کی۔اس خبر نے عوام کو مشتعل کردیا اور 6مئی کواس کے خلاف کشمیر بھر میں احتجاجات ہوئے۔
اس احتجاجی تحریک میں عوامی شرکت دیدنی ہے عام لوگ لانگ مارچ کے شرکاء کے لیے کھانا پکا رہے ہیں ۔پھل والے اپنا پھل مفت تقسیم کررہے ہیں اور مکینک مفت سروس فراہم کررہے ہیں عوام کا سیاسی شعور اس وقت انتہائی بلندی کی طرف گامزن ہے اور نے فرسودہ بیانیے کے کشمیر بنے گا پاکستان کو مسترد کردیا ہے وہ بجلی پر اپنا حق مانگ رہے اور پاکستانی تسلط کو قبول کرنے سے انکار کررہے ہیں۔
جمعرات 9مئی کی صبح 3بجے کے بعد پولیس نے میرپور ڈویژن کے تینوں اضلاع اور تحصیلوں میں چھاپے مارے اور سرگرم رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ان گرفتاریوں کے خلاف ڈڈیال، نکیال، تتہ پانی اور دیگر شہروں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال اور احتجاج شروع ہوگیا۔ڈڈیال میں مظاہرین پر پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شدید شیلنگ کی۔جس کی وجہ سے متعدد مظاہرین زخمی ہوئے اور گورنمنٹ ہائی سکول کی درجن سے زائد طالبات آنسو گیس کی شیلنگ کے باعث بے ہوش ہو گئیں۔
احتجاجی مظاہرین نے اس بربریت کے خلاف اسسٹنٹ کمشنر سمیت متعدد پولیس اہلکاروں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ ڈڈیال شہرمیں دن بھر احتجاجی مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں ہوتی رہیں۔گرفتاریوں کا یہ سلسلہ پورے کشمیر میں پھیل گیا اوربڑی تعداد میں طالب علم راہنماؤں،تاجروں اور سیاسی ورکرز کو گرفتار کرلیا گیا۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے جمعہ والے دن رات 12بجے سے کشمیر بھر میں مکمل پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ ہڑتال غیر معینہ مدت تک جاری رہے گی اور اس دوران مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی منعقد کیئے گے۔ رہنماؤں نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فیصلہ کن لڑائی کی تیاری کریں۔طلبہ ایکشن کمیٹیوں کے اجلاس ہوئے جن میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے فیصلے کے مطابق شٹر ڈؤان ہڑتال کو منظم کرنے میں ہراول کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت تمام ضلعی بار ایسوسی ایشنز نے بھی اس کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔
جمعہ کے روزکشمیر بھر میں تمام چھوٹے بڑے شہروں میں نظام زندگی مکمل طور پر معطل رہااور جموں کشمیر کو پاکستان سے ملانے والی تمام سڑکوں پر ٹریفک بند رہی۔ ہزاروں کی تعداد میں شہریوں نے مختلف شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالیں اور ریاستی جبر کے خلاف احتجاج اور نعرہ بازی کرتے رہے۔ان احتجاجی جلسوں میں اعلان کیا کہ شٹر ڈؤان ہڑتال جاری رہے گی اور 11مئی کو شیڈول کے مطابق لانگ مارچ ہوگا۔ یہ لانگ مارچ راولاکوٹ پہنچ چکا ہے اور محتاط اندازے کے مطابق بھی اس میں اس وقت لاکھوں مظاہرین موجود ہیں ابھی باقی اضلاع کو اس لانگ مارچ میں شامل ہونا ہے اور مختلف ترقی پسند کارکنان کے مطابق مظفر آباد میں 5سے 10لاکھ تک شرکت ہوسکتی ہے۔یہ نام پاکستانی زیرانتظام کشمیر کی تاریخ کی سب سے بڑی عوامی بغاوت ہے جو مظفرآباد میں اسمبلی سیکرٹریٹ کے سامنے اپنے مطالبات کے لیے دھرنا دینا چاہتے ہیں اور مطالبات کی منظوری تک دھرنا جاری رکھیں گے۔
اس صورتحال میں جہاں ایک طرف مسلسل مذاکرات ہورہے ہیں جو ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکے تو دوسری طرف کشمیر حکومت نے ایف سی اور پی سی کے بعد اب رینجرز سے بھی مدد مانگی جس کے بعد تین کمپنیاں جموں کشمیر میں داخل ہوچکی ہیں۔حکمران ہر حربہ استعمال کررہے ہیں کہ تحریک کو ختم کیا جاسکے۔اس سلسلے میں وہ تمام تر وحشیانہ اقدامات کے لیے تیار ہیں لیکن تحریک کی طاقت اور حمایت کی وجہ سے ابھی تک لانگ مارچ کو روک نہیں پائے ہیں۔
پچھلے سال سے جموں کشمیر میں بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ ہورہا ہے اور مختلف شہروں میں احتجاجی دھرنے جاری ہیں۔ اس دوران متعدد دفعہ مذاکرات بھی ہوئے ہیں لیکن مطالبات منظور نہیں ہو سکے ہیں۔ یہ تحریک منگلا ڈیم کی پیداواری لاگت پر ٹیکس فری بجلی کی فراہمی، سستے آٹے کی فراہمی اور حکمران اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
پاکستان،ہندوستان اور دنیا بھر کے محنت کشوں،مظلوم قومیتوں،ٹریڈیونینز،طلبہ اور عورتوں سے ۔۔اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستانی زیرانتظام جموں کشمیرمیںعوامی تحریک کی حمایت کریں
پیپلزپارٹی سمیت تمام دیگر الحاق نواز پارٹیاں اسے بیرونی ایجنڈا قرار دئے رہیں ہیں لیکن ان کے کارکنان اس تحریک میں شامل ہیں البتہ قوم پرست اوربائیں بازو کی تنظیمیں نہ صرف اس تحریک میں شامل ہیں بلکہ بہت ساری جگہوں پر یہ تحریک کی قیادت بھی کررہے ہیں۔ان حالات میں ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ یہ کسی بھی صورت میں پسپائی یا حکومت کے دھوکے میں آئے بغیر تحریک کو جاری رکھیں۔اس وقت حقیقت میں یہ تحریک کشمیر میں ایک دوھری طاقت کو جنم دئے چکی ہے۔ یہ تحریک حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتی ہے لیکن اس تحریک کو ادھر رکنے کی بجائے اس نام نہاد اسمبلی کو مسترد کرتے ہوئے نئی آئین ساز اسمبلی کا مطالبہ کرنا چاہیے جس کے الیکشن عارضی انقلابی حکومت کرئے۔ جس میں کشمیر کے لوگ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرسکیں یعنی معاشی جدوجہد کو قومی آزادی اورسرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد میں بدلنا ہوگا۔