سوشلسٹ ریزسٹنس
بلوچ اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل آرگنائزیشن کے زیر اہتمام آج مورخہ 15 اگست کو حیات بلوچ کے ایف سی اہلکاروں کے ہاتھوں بہیمانہ قتل کے خلاف کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج منعقد کیا گیا جس میں بائیں بازو کی طلباء اور دیگر تنظیموں نے بھرپور شرکت کی۔
حیات بلوچ کو دو روز قبل تربت میں ان کے والدین اور بہن کے سامنے ایف سی اہلکاروں نے شک کی بنا پر رسیوں سے ہاتھ پیر باندھ کر گولیوں سے چھلنی کر دیا اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے۔ حیات کے قتل کے بعد بلوچ سماج میں صدمہ اور غصہ کی کیفیت میں اضافہ ہوا۔ حیات جامعہ کراچی کے فیزیالاجی ڈیپارٹمنٹ کے فائنل ییئر کے طالب علم تھے۔ وہ ایک غریب محنت کش خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے قتل کی خبر نے ان کے گھر والوں کے ساتھ ساتھ ان کے طلباء ساتھیوں، دوستوں اور اساتذہ کو شدید دکھ کی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک نوجوان بلوچ طالب علم کا اس طرح سر عام اس کے والدین کے سامنے قتل ریاست کی بوکھلاہٹ کا واضح ثبوت ہے۔ یہ ریاست اپنی معیشت کو چلانے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے اور اس کا تمام تر یہ نظام نہایت فرسودہ ہو چکا ہے۔ اپنے بحران سے نہ نمٹ پانے کی صورت میں یہ ریاست آئے روز محنت کشوں اور مظلوم اقوام پر بڑے حملے کر رہی یے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ:
-بلوچستان، فاٹا، خیبر پشتونخواہ، کشمیر، سندھ و دیگر علاقوں سے تمام فوجی و نیم فوجی دستے واپس بلائے جائیں
-پسماندہ علاقوں میں اعلیٰ تعلیم کی بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں
-مظلوم اقوام سے تعلق رکھنے والے افراد، بالخصوص نوجوانوں، پر جبر و تشدد کا سلسلہ بند کیا جائے
حیات کے قتل میں چونکہ یہ ریاست خود ملوث ہے، لہذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس ریاست سے انصاف یا شفاف انکوائری کی امید لگانا خود فریبی ہے۔ ہم بلوچستان کے محنت کشوں، طلباء، ٹریڈ یونینوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس واقعہ کی انکوائری اور مجرموں کے لئے سزا طے کرنے کے لئے اپنی آزادانہ کمیٹی بنائیں جس میں ریاست یا حکمران طبقہ کے کسی فرد کو شامل نہ کیا جائے۔ انصاف کی واحد ضمانت ہمارے طبقہ کی آزادانہ سیاست ہے اور حکمران طبقہ کے کسی ایک نمائندہ کی شمولیت بھی اس سیاست اور انصاف کے تقاضوں پر سمجھوتہ ہے۔