تحریر:جاویدعمران
کسانوں کی جیت
انڈین کسانوں کی جرات مند جدوجہد نے نیولبرل مودی سرکار کوایک بڑی شکست دی ہے جس کی وجہ سے مودی کو رجعتی زرعی قوانین کی منسوخی کا اعلان کرنا پڑا ہے۔یہ کسانوں کی جیت ہے جو ان کی ایک سال سے زیادہ جدوجہد کا نتیجہ ہے۔اس جدوجہد میں 700 سے زائد کسان شہید ہوئے ہیں۔
کسانوں کی جدوجہد کو ملک بھر سے مزدور تنظیموں،طلبااورعورتوں کی طرف سے حمایت ملی ہے اوروہ کسانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے دھرنے میں بھی شامل ہوتے رہے اور انہوں نے دھرنے کی حمایت میں احتجاجات بھی منظم کیئے۔
مودی سرکار کا وحشیانہ تشدد
کسان پورا سال انتہائی سخت موسم اور کویڈ19کی وباء کے باوجود ڈٹے رہے۔ کسانوں کی قیادت کے ساتھ حکومت کے تمام تر مذاکرات بے نتیجہ رہے اور مودی سرکار کی تمام تر تقسیم اور حکمرانی کی پالیسی ناکام ہوگئی۔ان حالات میں مودی سرکار کی پولیس نے ان پر وحشیانہ تشدد اور گرفتاریاں اورلکشمی پور میں کسانوں کا قتل عام کیا گیا تاکہ خوف کی فضاء قائم کرکے کسانوں کو جھکنے پر مجبور کیا جاسکے۔تمام تر جبر وتشددکے باوجودمودی سرکار کسانوں کی جدوجہد کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔
تحریک کا پھیلاؤ
اس سال کے آغاز میں انڈین ریپبلک ڈے پر لاکھوں کسانوں نے دہلی میں مارچ کرتے ہوئے لال قلعہ پر قبضہ کرلیا تھاجس کے بعد کسانوں کی یہ تحریک اترپردیش اور ملک کے دیگر حصوں میں پھیل گئی۔اس موقع پر مودی سرکار نے وحشیانہ تشدد کے ذریعے اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی جس میں وہ ناکام ہوئی اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں کسان دیگر ریاستوں میں بھی سڑکوں پر آگے اور مزدورں،عورتوں اور طلباء نے اس جدوجہد اور میڈیا میں مودی سرکارجس طرح ان قوانین کو ترقی اور سماج کی بہتری کے لیے مفید بتارہے تھے اس کے متبادل کسانوں نکتہ نظر کو پھیلایا۔
سرمایہ دارانہ لوٹ مار میں رکاوٹ
مودی نے بابا گرونانک کے جنم دن کے موقع پر قوم سے خطاب میں کسان مخالف زرعی قوانین واپس لینے کا اعلان کیاانھوں نے کہا کہ‘آج میں پورے ملک کو یہ بتانے آیا ہوں کہ ہم نے تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مہینے کے اواخر میں شروع ہونے والے پارلیمانی اجلاس میں ہم ان تینوں قوانین کو منسوخ کرنے کا آئینی عمل مکمل کریں گے۔
کسان رجعتی زرعی قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کررہے تھے یعنی کم سے کم سپورٹ پرائس کوختم کرنے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ اس قانون کے بعدزرعی اجناس کی فروخت اور قیمتوں کا تعین منڈی نے کرنا تھا جس سے نجی سرمایہ دار اور کارپوریٹ سیکٹر قیمتوں کا تعین کرسکتے، جس سے ذخیرہ اندوزی اوردیگر حربوں کے ذریعے کسانوں کا معاشی قتل عام ہوتا اور مودی حکومت کے حمایتی سرمایہ داروں کو لوٹ مار کے نئے مواقع ملتے۔
حالانکہ کسان مخالف بلوں کو جاگیرداروں کی حکمرانی کے خاتمے نام پر پیش کیا جارہا ہے لیکن حقیقت میں یہ آرتھی کے کردار کو مضبوط بناتا ہے۔ ریاستوں کے درمیان تجارت کی اجازات دیتاہے اور ذخیرہ اندوازی پر گرفت کو نرم کرتا ہے۔مودی حکومت نے بی جے پی کو فنڈ دینے والے بڑے سرمایہ داروں یعنی مکیش امبانی اور گوتم اڈانی جیسے بڑے سرمایہ دار وں کو مواقع فراہم کیا تھاکہ وہ زراعت میں ان اصلاحات سے منافع حاصل کرسکیں۔ان اصلاحات کے نتیجہ میں اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور محنت کشوں اور غریب عوام کی مشکلات بڑھ گئی ہیں جو پہلے ہی اپنی آمدن کا بیشتر حصہ خوراک پر خرچ کرتے ہیں۔
تحریک کا شعور
یہ کسانوں کی تحریک کی ایک بڑی کامیابی ہے لیکن سمیو کٹھ کسان مورچہ کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ مودی سرکار نے ہمیشہ دھوکا دیا ہے اس لیے جہاں انہوں نے تحریک کی جیت پر خوشی کا اظہار کیا ہے لیکن دوسری طرف انہوں نے مودی کی نصیحت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا انہوں نے کہا کہ جب تک ان قوانین کے خاتمے کا بل لوک سبھا سے منظور نہیں ہوجاتااور اس کے علاوہ بجلی کا ترمیمی بل واپس نہیں لیا جاتاہے اور تمام زرعی پیدوار کے لیے مناسب قیمتوں کی قانونی ضمانت نہیں دی جاتی ہے، وہ اپنا دھرنا جاری رکھیں گئے۔یہ کسان تحریک کے شعور کو ظاہر کرتا ہے جو انہوں نے جدوجہد کے دوران حاصل کیا ہے۔
ریاستی الیکشن
مودی سرکار کی طرف سے قوانین کو واپس لینے کی فوری وجہ اترپردیش،پنجاب اور دیگر ریاستوں میں ہونے والے الیکشن ہیں کیونکہ ان ریاستوں کے کسانوں میں مودی سرکار کے خلاف شدید نفرت موجود ہے اور تحریک کے اثرات محنت کشوں اور شہری و دیہی غریبوں پر بھی مرتب ہوئے ہیں اور مودی اور ان کی پارٹی یہ سمجھتی تھی کہ اس غصہ اور نفرت کے ماحول میں ان کے لیے الیکشن بہت مشکل ہوجائیں گے۔اس سب سے یہ ظاہر ہے کہ کسان تحریک نے کس طرح سماج کی دیگر پرتوں کو بھی متاثر کیا ہے۔
نیولبرل ازم کی شکست اور مزدور جدوجہد
کسانوں کی یہ جیت نیولبرل ردِاصلاحات کی شکست ہے۔یہ شکست کسانوں کی قربانیوں اور جدوجہد کی وجہ سے ممکن ہوئی لیکن اس میں مزدوروں،عورتوں اور طلباء کی ان کے ساتھ یکجہتی نے اہم کردار ادا کیا۔اس کامطلب ہے کہ مودی کی نیولبرل سرکار کے خلاف حقیقی جدوجہد سڑکوں،کھیتوں اور کام کی جگہ پر ہی ممکن ہے۔اس میں ٹریڈ یونین قیادت کے لیے بھی اہم سبق ہے کہ اگر انہوں نے محنت کشوں کے خلاف مودی سرکار کے حملوں کو روکنا ہے اور ردِاصلاحات کا خاتمہ کرنا ہے تو ان کو دو روز عام ہڑتال سے غیر معینہ ہڑتال کی طرف جانا ہوگا اور اس جدوجہد کو سرمایہ داری کی حدود سے آگے لے جانا ہوگا۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کسانوں کو ناصرف کہ خبردار کیا جائے کہ اگر مودی سرکار ی ان قوانین کا لوک سبھا کے ذریعے خاتمہ بھی کروادیتی ہے تب بھی وہ مختلف طریقوں سے ان کوواپس لانے کی کوشش کرئیں گئے کیونکہ ہندوستان کا بڑا سرمایہ اب زراعت پر اپنا کنٹرول چاہتاہے تاکہ وہ اپنے منافع میں اضافہ کرسکے اور عالمی طور پر بھی انڈیا ایک طاقتور سرمایہ دار ملک کے طور پر ابھر سکے۔
الیکشن یا جدوجہد
کیمونسٹ پارٹیاں اس وقت اس تحریک کی کامیابی کو الیکشن میں نشستیں حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ الیکشن اتحاد کے ذریعے بی جے پی کو شکست دی جاسکتی ہے۔الیکشن سے انکار نہیں ہے لیکن اس کوجدوجہد اور تحریک پر فوقیت دینے کی حکمت عملی غلط ہے۔کسان تحریک نے واضح کیا ہے کہ عوام کے ساتھ جڑی ہوئی نیولبرل مخالف تحریک ہی مودی کی انتہائی رجعتی سرکار کو شکست دئے سکتی ہے۔
این آر سی اور سی سی مخالف تحریک کو دہلی فسادات کے ذریعے کچلنے اور ہنداتو مخالف ایکٹوسٹوں کو جیل میں ڈالنے کے بعد کسان تحریک مودی سرکار کے خلاف ایک طاقتور متبادل کے طور پر ابھری تھی کسان تحریک مسلمانوں کے لیے ایک امید بن کرآئی اور کسانوں نے ان کا ساتھ بھی دیا۔
کسانوں کی جیت ایک بڑا قدم ہے لیکن یہاں سے اب کسانوں،محنت کشوں،مسلمانوں اور دلت تحریک کو جوڑنے کی ضرورت ہے جو کسانوں کے دیگر مطالبات کے ساتھ،سی سی اے،لیبرلائز،کشمیر اور دیگر معاملات پر مودی سرکار کے خلاف جدوجہد کو آگے بڑھیں اور سرمایہ داری مخالف پروگرام پیش کرئے جو مودی سرکار اور اس کی نیولبرل پالیسیوں کے خلاف جدوجہد کو سرمایہ دارانہ حدود سے آگے لے کرجائے اسی طرح مودی سرکار کو شکست دی جاسکتی ہے لیکن اس کے ساتھ محنت کشوں کی حکومت کا پروگرام بھی پیش کرنا ہوگا۔اس کے لیے محنت کشوں کی پارٹی کی ضرورت ہے جو یہ تناطر رکھتی ہو۔