ہندوستان عورتیں”رات میں بھی جینا ہمارا حق ہے” کےلیے متحرک

Posted by:

|

On:

|

,

تحریر:ڈیو سٹاکنگ
جب 9 اگست کو مغربی بنگال کے کولکتہ شہرمیں آر جی کار میڈیکل کالج اینڈ ہسپتال میں 31 سالہ ٹرینی ڈاکٹر مومیتا دیبناتھ کو ریپ اور قتل کا واقع سامنے آیا تو ہندوستان بھر میں احتجاج شروع ہوگیا خاص کر عورتوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر اس نعرے ”رات میں بھی جینا ہمارا حق ہے“کے تحت نکل آئیں۔
پوسٹ گریجویٹ طلبہ کا شدید استحصال کیا جاتا ہے، جنہیں اپنی تعلیم اور تربیت کے دوران 36 گھنٹے کی شفٹوں سے گزرنا پڑتا ہے مقتولہ بھی 36 گھنٹے کی شفٹ سے آئی تھی اور ایک سیمینار کے کمرے میں سو رہی تھی جب اس پر وحشیانہ حملہ کیا گیا کیونکہ طلباء کے آرام کے لیے جگہ موجود نہیں ہے۔
عورتوں کے مظاہروں میں مرد،طلباء اور ڈاکٹروں کی بڑی تعدادبھی شامل تھی، مغربی بنگال کے اسپتالوں اور ہندوستان بھر کی دیگر ریاستوں میں طبی عملے نے ہڑتال کردی۔ پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کی اور مظاہرین پر تشدد کیااور ان پر واٹر کینن بھی پھینکے۔ یہ تحریک جلد ہی دہلی، چندی گڑھ، اتر پردیش، پٹنہ، گووا اور دیگر مقامات تک پھیل گئی۔
پولیس فورس اور اسپتال انتظامیہ نے اس واقعے کو چھپانے کی کوشش کی اور ابتدائی طور پر اسے خودکشی بتایا گیا ہے۔ بااثر شخصیات اور ریاستی ادارے مجرموں کو بچانے کی بھرپور کوششیں کر رہے تھے۔ آر جی کر کے پرنسپل نے ابتداء میں مقتولہ کے والدین کو بتایا کہ ان کی بیٹی نے خود کشی کی ہے، جبکہ بعد میں پوسٹ مارٹم نے موت کی اصل وجہ بدترین جنسی تشدد اور ریپ ظاہر کردی۔
نریندر مودی کی بی جے پی حکومت نے اس واقع پر غم و غصے کا اظہار کیا لیکن انہوں نے مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی(ترنمول کانگریس) سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے کے لیے اس واقعے کو ہتھیارکے طور پر استعمال کیا۔
جنسی تشدد
کولکتہ کا واقعہ قدرتی طور پر 2012 کا واقعہ یاد دلاتا ہے جب 22 سالہ فزیو تھراپی انٹرن جیوتی سنگھ جو دہلی میں ایک بس میں اپنے مرد دوست کے ساتھ سفر کر رہی تھی اسے ڈرائیور اور چھ مسافروں نے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا اور بعد میں جیوتی نے اسپتال میں دم توڑ دیاتھا۔ اس واقعہ کی ہندوستان اور عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر مذمت ہوئی تھی اور ہندوستان میں عورتوں کے حقوق کے لیے ایک بڑی تحریک شروع ہوئی تھی جس کے بعد عورتوں کے حقوق کے حوالے سے قانون سازی بھی کی گئی تھی۔
لیکن 12 سال بعد بھی ہندوستانی عورتوں کو سڑکوں، کام کی جگہ اور گھر میں جنسی تشدد کی خوفناک شرح کا سامنا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو نے 2022 میں ایک دن میں عصمت دری کے اوسطاً 86 واقعات ریکارڈ کیے تھے۔ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی کیونکہ بڑی تعداداسے واقعات رپورٹ ہی نہیں کرتی ہیں کیونکہ عورتوں کو انتقامی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو عورت اپنے حق کے لیے آواز بلند کرئے اسے بری عورت سمجھ جاتا ہے اور پولیس کی غیر موثر اور اکثرجان بوجھ کر مجرم کو بچانے کی کوششوں کی وجہ سے عورتیں خاموش ہوجاتی ہیں۔ دلت، آدیواسی اور نچلے طبقے کی خواتین کی عصمت دری کابہت کم نوٹس لیا جاتا ہے اورانہیں انصاف نہیں ملتاہے اکثر بڑی ذات کے مرد انہیں رعب اور دبدبے کے لیے ریپ اور دیہات میں کو سرعام جنسی ہراسنگی کا نشانہ بناتے ہیں۔
ایسے گھناؤنے حملوں کے ذمہ داروں کو تلاش کر کے سزا دینے کی ضرورت ہے۔ ہسپتالوں، سکولوں، کارخانوں اور دفاتر اور کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کی حفاظت ہونی چاہیے۔ گھریلو تشدد اور عصمت دری کو بھی بے نقاب اور سزا دینے کی ضرورت ہے۔
محنت کش طبقے کی خواتین کی تحریک
لیکن عورتوں کے قتل اور عصمت دری کے خلاف جنگ سرمایہ دارانہ ریاست کی مدد سے نہیں جیتی جاسکتی ہے اور نہ ہی لڑی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر چونکہ طبقاتی سماج عورت سے نفرت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے جس میں اسے مرد کے برابر نہیں سمجھ جاتا اور نہ ہی اسے برابر کے حقوق حاصل ہوتے ہیں اور یہ عورت سے نفرت کو جنم دیتا ہے اور اسے رجعتی قوتیں اور گھٹیا سیاست دان پروان چڑھاتے ہیں جو تمام پدرانہ اقدار کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
خواتین کو خود منظم ہونا چاہیے؛ شہری اور دیہی محنت کشوں کی تحریک کو چاہیے کہ وہ ان تمام لوگوں سے مل کرفاعی تنظیمیں بنانے میں ان کی مدد کرئیں جو اس طرح کے حملوں کا شکار ہیں جس میں دیگر جنسی اقلیتیں بھی شامل ہیں۔ اس کا مطلب ہے کام کی جگہوں پر، سڑکوں پر، شہروں اور دیہاتوں میں منظم ہونا چاہیے۔ ترقی پسند مردوں کی مدد سے محنت کش طبقے کی خواتین کی ایک عوامی تحریک قائم کی جا سکتی ہے جو موجودہ وقت کی طرح بڑے پیمانے پر احتجاج کو شروع ہو سکتی ہے اگر ایسا نہیں ہوا تو ایسے ہولناک واقعات سے پیدا ہونے والے تمام جائز غصے کا کوئی دیرپا نتیجہ نہیں نکلے گا۔

Posted by

in

,