ڈاؤ میڈیکل کالج کے طلباء کی ہاسٹل سے بےدخلی نامنظور

Posted by:

|

On:

|

,

(سوشلسٹ ریزسٹنس (رپورٹ

ڈاؤ میڈیکل کالج کے مردانہ ہاسٹل میں رہائش پذیر طلباء نے جمعہ کے دن کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج کیا اور بعد ازاں ٹوئٹر پر اپنے حق کے لئے کمپین چلائی۔ سندھ حکومت نے ڈاؤ کے بائز ہاسٹل کی عمارت کو انسٹیٹیوٹ آف فیزیکل میڈیسن ایند ریہیبلٹیشن کو سپرد کئے جانے کا اعلامیہ جاری کیا ہے۔

اس عمارت میں وہ طلباء رہتے ہیں جو سندھ کے دیہی علاقوں، بلوچستان، خیبر پختونخواہ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے طب کی تعلیم کے حصول کے لئے کراچی آتے ہیں۔ اس رہائش گاہ کو ختم کرنے کا مطلب آخری تجزیہ میں ان پسماندہ علاقوں کے نوجوانان کو طب کی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع سے محروم کرنا ہوگا۔ ایک طرف غیر ہموار ترقی کے سبب ان نوجوانان کے علاقوں کو باقاعدہ پسماندہ رکھا جاتا ہے، اس پر ستم ظریفی یہ کہ اب ان سے کراچی آنے پر رہائش کا بنیادی جمہوری حق بھی چھینا جا رہا ہے۔ کیا اس سرکار کو ریہیبیلٹیشن انسٹیٹیوٹ کے لئے پورے کراچی شہر میں کوئی عمارت نہ ملی جو مظلوم قومیتوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کی رہائش گاہ پر حملہ آور ہو رہی ہے؟ یہ حملہ کسی صورت قبول نہیں ہے اور طلباء اپنے حق کی جدوجہد میں متحرک ہیں اور ہم ان کی حمایت کرتے ہیں۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ڈاؤ میڈیکل کالج کے طلباء کے حق پر یہ حملہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس کی ایک کڑی آنلائن کلاسز کے خلاف تحریک پر تشدد ہے اور دوسری کڑی آئی ایم ٹی کے پاکستان سیکشن کے ممبر کامریڈ امین اور عوامی ورکرز پارٹی کے شفقت حسین کی جبری گمشدگیاں ہیں۔ یہ ریاست ویسے تو آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کرنے کے بعد سے ہی شدید بحران سے دوچار تھی مگر کوروناوائرس وبا کے بعد اس کی معیشت کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ یہ ریاست جو درحقیقت حکمران طبقہ کی ریاست ہے اب موجودہ بحران کا بوجھ محنت کش طبقہ، شہری و دیہی غرباء اور مظلوم قومیتوں پر ڈال رہی ہے اور ان کے حقوق پر بڑے ڈاکے ڈال رہی ہے۔ ہم ان تمام حملوں کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی یہ دیکھ کر بھی ہماری حوصلہ افزائی ہوتی ہے کہ نظام کے جبر کے خلاف زبردست تحریکیں ابھر رہی ہیں، جو کہ ایک خوش آئند عمل ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اب ان تحریکوں کو آپس میں جوڑا جائے کیونکہ ہم سب کا دکھ سانجھا ہے۔

اس وقت تمام انقلابی سوشلسٹوں کو ڈاؤ کے طلباء کے اس بنیادی مطالبہ کی حمایت کرنی چاہئے کہ ان کا ہاسٹل کسی اور ڈیپارٹمنٹ کو نہ سپرد کیا جائے۔ ہم پر یہ لازم ہے کہ عملی جدوجہد کے میدان میں بھی ہاسٹل کے دفاع میں اتریں۔ طلباء سے بھی ہم یہ اپیل کرتے ہیں کہ اپنی ایکشن کمیٹیاں تشکیل دیں جس میں محنت کش طبقہ کی آزادانہ سیاست بنیادی اصول ہو۔ اس کے علاوہ جو طلباءتنظیمیں پہلے سے وجود رکھتی ہیں یا اب وجود میں آ رہی ہیں، ان کو بالآخر محنت کشوں کے ساتھ طبقاتی جدوجہد کے میدان میں اترنا ہوگا اور عمل کا ایک متحدہ محاذ تشکیل دینا ہوگا۔ حکمران طبقہ کے حملوں کا مقابلہ ہم عمل میں جڑت کے ذریعہ ہی یقینی بنا سکتے ہیں۔ ڈاؤ میڈیکل کالج کے طلباء کی جدوجہد کو سرخ سلام!

Posted by

in

,