سامراج کا بحران اور سوشلزم کی جدوجہد

Posted by:

|

On:

|

سامراج قوتوں کے درمیان دنیا کی اسرنو تقسیم کی کشمکش آج کی عالمی صورتحال کی بنیادی خصوصیت ہے جس نے تمام تر سیاسی،سماجی اور معاشی بحرانات کو تیز تر کردیا ہے۔فروری 2022 ء میں یوکرین پر روسی سامراجی حملہ عالمی سطح پر اہم سیاسی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ ابھی تک سامراجی طاقتوں کے درمیان براہ راست جنگ نہیں ہے اس لیے یوکرائنی عوام کے حق خودارادیت کی جدوجہد جائز ہے۔بین لسامراجی تنازع تیزی کے ساتھ ایک فیصلہ کن عنصر بن گیا ہے۔ اس کا اطلاق جنگ بندی یا ”امن“پر ہوتا ہے جسے امریکہ اور روس آنے والے مہینوں میں نافذ کر سکتے ہیں، اس کے ساتھ سامراجی ہتھیاروں کی دوڑ میں ایک نئے معیاری اضافہ جنم نے جنم لیا ہے۔
بحران کی معاشی جڑیں
. مالیاتی کریش(2008-09) کے بعد سے اس دشمنی میں بڑھتوری کی وجہ سرمایہ دارانہ منافع کا بحران ہے جس نے سامراجی ممالک اور نیم نوآبادیاتی دنیا کے اکثریتی ممالک کو متاثر کیا ہے۔ روس اگرچہ یورپی اور امریکی پابندیوں برداشت کرگیا ہے حالانکہ کچھ لوگوں کو امید تھی کہ وہ گھٹنے ٹیک دے گالیکن یوکرین میں پوٹن کی مہم جوئی سے اسے شدید نقصان پہنچا ہے۔ چین میں بڑی مقروض تعمیراتی فرموں کے زوال سے نہ صرف دسیوں ملین عمارتیں نامکمل رہ گئی ہیں بلکہ حکومتی فنڈنگ کا ایک بڑا ذریعہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ جرمنی، فرانس، برطانیہ اور اٹلی جیسی بڑی یورپی معیشتیں جمود اور کساد بازاری کے درمیان ہچکولے کھارہی ہیں۔
بیشتر نیم نوآبادیاتی ممالک میں بحران جاری ہے اور تقریباً ایک ارب لوگ روزانہ کی بنیاد پر بھوک اور غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔اس صورتحال اور ماحولیاتی بحران نیزجنگوں نے لاکھوں لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے اور پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور کیا ہے۔ جو لوگ شمالی امریکہ یا یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں فوٹریس یورپ یا امریکہ کی سرحدوں پر موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ نسل پرستی میں اضٓافہ اور انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں تارکین وطن پر معاشی پریشانیوں کا الزام لگاتے ہوئے مزید وحشیانہ اقدامات کا مطالبہ کرتی ہیں۔
تمام اہم ممالک میں ارتکاز زر اور شرح منافع میں کمی عالمی معیشت اور اس کے انسانی اور قدرتی وسائل پر تسلط کے لیے نئی اور پرانی سامراجی طاقتوں کے درمیان مسابقت کو جنم دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئے امریکی صدر نے نہ صرف چین جیسے معاشی دشمنوں بلکہ کینیڈا، جرمنی اور میکسیکو جیسے اتحادیوں کے خلاف ایک بے مثال ٹیرف جنگ شروع کرنے کی دھمکی دی ہے۔
اس کی معاشی بلیک میلنگ کا مقصد نہ صرف ایک بڑھتے ہوئے حریف چین کو کمزور کرنا ہے بلکہ یورپ اور شمالی امریکہ کی دیرینہ ”شراکت داری“برقرار رکھنے کے لیے امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کے اخراجات ان پر ڈالنا ہیں۔ ٹرمپ پوٹن کے ساتھ کوئی معاہدہ کرسکا تو وہ کیف کو علاقے حوالے کرنے کے لیے مجبور کر ئے گا جس سے اس کے اندرونی تضادات اور یورپی بورژوازیوں کے ساتھ جغرافیائی تزویراتی دشمنی میں اضافہ ہو گا۔ اگر ٹرمپ تجارتی جنگ شروع کرتا ہے تو ناگزیر طور پر اس کا ردعمل عالمی معیشت کو مزید متاثر کرئے گا، جس سے سنگین اور طویل کساد بازاری اورمزید تباہ کن جنگوں کے خطرات بڑھ جائیں گے۔
یوکرین میں ایک سامراجی امن بھی عالمی دشمنیوں کو ختم نہیں کرے گا۔ یہ انہیں صرف ایک مختلف شکل دے گا۔ تمام سامراجی مراکز اور تمام بڑے نیم نوآبادیاتی ممالک میں فوجی اخراجات میں زبردست اضافہ، ہتھیاروں کی نئی دوڑ اور ملٹر ی یلیزئیشن میں اضافہ ہوگا۔
جنگ اور نسل کشی
حماس کی زیرقیادت 7 اکتوبر 2023 کو غزہ سے جوحملہ کیا گیا اس کی وجہ محاصرے کو ختم کرنا اور امریکی،اسرائیل اور سعودی علاقائی معاہدے میں رکاوٹ ڈالنا تھا جس میں فلسطینی شامل نہیں تھے۔اسے نیتن یاہو اور اس کے فاشسٹ اتحادیوں نے ایک خوفناک نسل کشی شروع کرنے کا بہانہ بنایا۔ غزہ میں آئی ڈی ایف نے 50000 سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کیااور مغربی کنارے میں نسلی تطہیر کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیل نے اپنی جنگ کو لبنان تک بڑھایا اور ایران اور یمن پر بھی حملے شروع کر دیے تاکہ ”مزاحمت کے محور“کو بے اثر کر سکیں۔ اسد حکومت کے خاتمے نے اسرائیل کو شامی فوج اور بحری افواج کو تباہ کرنے اور گولان کی پہاڑیوں کے مزید علاقوں پر قبضہ کرنے کا بہانہ بھی فراہم کیا۔
فوری جنگ بندی اور اسرائیلی نسل کشی کے خاتمے کے مطالبہ کے لیے دنیا بھر میں ہونے والے بڑے مظاہروں نے واضح کیا کہ فلسطینی کاز کی حمایت کتنی گہری ہے لیکن مظالم کو ختم کرنے یا اس میں کمی کے لیے بھی یہ احتجاج ناکافی ثابت ہوئے۔ غیر مشروط امریکی حمایت کی ضمانت نے نیتن یاہو اور اس کے اتحادیوں کو حوصلہ دیا ہے کہ وہ اپنے اور امریکہ کے مفادمیں پورے خطے کو ارسرنوترتیب دینے کی کوشش کرئیں۔ دریں اثنا امریکہ، مغربی یورپ یا ارجنٹائن میں صیہونی حامی حکومتوں نے فلسطینیوں کے حامی ایکٹوسٹوں پر ظلم و ستم جاری رکھا اور انہیں یہود مخالف قرار دیا ہے جب کہ ان کا میڈیا یہ بات دہرا رہا ہے کہ غزہ کی تباہی کا جواز اس ظالم جارح کے ”اپنے دفاع کا حق“ہے۔
دنیا بھر کے انقلابیوں کا فرض ہے کہ وہ نسل کشی کے خلاف مزاحمت اور شام کی طرح آمریت کے خلاف عوامی تحریکوں کے ساتھ یکجہتی کریں۔ ساتھ ہی انہیں حقیقی محنت کش طبقے کی قوتوں کو اکٹھا کرنے اور ایک انقلابی متبادل کے لیے مداخلت کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم بائیں بازوکے یہ”کیمپسٹ“اس میں حائل ہوتے ہیں جو شام میں ہونے والے واقعات کو محض اسرائیل اور نیٹو کی طرف سے اسد، حزب اللہ، حماس اور ایران پر مبنی ”مزاحمت کے محور“کو تباہ کرنے کی سازش سمجھتے ہے۔ یہ یوکرین کی روسی جارحیت کے خلاف مزاحمت کو مغرب کی طرف سے صرف ایک پراکسی جنگ کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس میں مغربی سامراجی مفادات کو مظلوم قوموں کے حق خودارادیت پر فوقیت دیتے ہیں۔
درحقیقت شام، لبنان اور فلسطین کے ساتھ ساتھ یوکرین کے واقعات بھی امریکہ اور یورپی یونین پر مشتمل پرانی سامراجی طاقتوں اور نئے ابھرتے ہوئے سامراجیوں چین اور روس کے درمیان بڑھتی ہوئی دشمنی کا نتیجہ ہیں جو اقتصادی اور اسٹریٹجک طور پر امریکہ کی بالادستی کو چیلنج کر رہے ہیں۔
دائیں بازو کا عروج
نومبر میں ٹرمپ کی فتح اور بین الاقوامی سطح پر دائیں بازو کی پاپولسٹ قوتوں کی پیش قدمی2024 ء میں عالمی صورتحال کی اہم خصوصیات ہیں۔ ارجنٹائن میں میلی کی قیادت میں حکومت، اٹلی میں میلونی، بھارت میں مودی کا دوبارہ انتخاب، فرانس میں میرن لی پین کا عروج یہ سب اس بات کو ثابت کرتے ہیں اور اس صورتحال کے جاری رہنے کا امکان ہے۔ جرمنی میں اے ایف ڈی نے فروری 2025 کے الیکشن میں اپنے ووٹوں کا حصہ دوگنا کیا ہے۔
یہ اپنی رجعتی پالیسیوں کواور ”اسٹیبلشمنٹ“کے خلاف بڑے پیمانے پر زبانی جمع خرچ کرکے اپنے آپ کو ایسے لوگوں کے طور پر پیش کرتے ہیں جو اپنے ممالک کو ”دوبارہ عظیم“بنائیں گے۔ وہ اکثر پرانی بورژوا جمہوری پارٹیوں،لبرل میڈیا،ٹریڈ یونینوں اور اصلاح پسند جماعتوں کی نوکرشاہی قیادت کو بدعنوان قرار دیتے ہیں۔ ”سنٹر‘یا سنٹر لیفٹ کی جماعتوں کا ریکارڈ ان کی رجعتی ڈیماگوجی اور غیر معقولیت (اینٹی ویکس، موسمیاتی تبدیلی سے انکار) کے لیے ایک جواز فراہم کرتا ہے جبکہ نسل پرستی مخالف، حقوق نسواں، ٹرانس اور پرو امیگرنٹ تحریکوں کو رعایتیں اور اصلاحات کے حامیوں کو رجعتی الزامات کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
یہ رجعتی حملے مزاحمت اور بڑے پیمانے پر جوابی متحرک ہونے کا باعث بن رہے ہیں جیسا کہ ہم امریکہ، یورپ اور برصغیر پاک و ہند میں خواتین کے خلاف مردوں کے تشدد کے خلاف مظاہروں میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس میں یہ ممکن ہوسکتا ہے محنت کش اور نوجوانوں ان اصلاح پسند جماعتوں جیسے جرمنی میں ڈی لنکا اور فرانس میں این ی پی کو دائیں بازو کے خلاف متبادل کے طور پر دیکھیں۔
رجعت پسندانہ پالیسیوں کی پیش قدمی دراصل یورپین یونین،یوکے اور امریکہ میں مہاجرین اور مہاجرین مخالف قوانین اور انسداد دہشت گردی کے نام پر جمہوری حقوق سے انکار یا پابندیوں کے ذریعے شروع ہوئی جسے ”سنٹر“یا یہاں تک کہ سنٹرلیفٹ کی حکومتوں نے نافذ کیا ہے۔ جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں نیٹو کی توسیع اور ہتھیاروں کے اخراجات میں بڑے پیمانے پر اضافہ کنزرویٹو، لبرل، سوشل ڈیموکریٹک اور گرین پارٹیوں کے ایک وسیع اتحاد کے ذریعے عائد کیا گیا ہے جیسے بعض اوقات اسے نام نہاد بائیں بازو کی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل رہی۔
امیروں کے لیے ٹیکسوں میں کٹوتی یا بینکنگ اور صنعتی سرمائے کو سبسڈی، اجرتوں، سماجی سہولتوں پر حملے اور نجکاری کو اصلاح پسند جماعتوں کے رہنماؤں اور بڑی ٹریڈ یونینوں کی رضامندی یا صرف زبانی مخالفت سے لاگو کیے گے ہیں۔ روایتی اصلاح پسند جماعتوں کے یہ اقدامات مزدوروں کی تحریکوں میں قیادت کے بحران کی وجہ سے محنت کش طبقے کے کچھ حصے دائیں بازو کے پاپولسٹوں کی طرف راغب ہوئے ہیں۔
قیادت کے بحران کا حل
بحران کے بڑھتے ہوئے پہلواور آفیشل مزدور تحریکوں کے ردعمل کی کمزوری کی وجہ سے دنیا بھر کے انقلابیوں کی نسبتاً چھوٹی اور منقسم قوتوں کے کندھوں پر ایک بہت بڑی ذمہ داری آتی ہے۔ جنگوں، موسمیاتی تبدیلیوں اور محنت کشوں کے جمہوری حقوق پر حملوں اور سماجی طور پر مظلوموں کے مسائل عالمی سطح پر ہی حل کیے جا سکتے ہیں اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انقلابیوں کو خود کو عالمی سطح پر منظم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ انہیں ایک ایسے پروگرام کے لیے تیار اور مہم چلانی چاہیے جو متحد اور مسلح ہو سکے اور ان رینک اینڈ فائل قیادت کو تیار کرئے جو استحصالیوں اور جابروں کے خلاف عوامی جدوجہد سے ابھریں گے۔ بنیادی مقصد ایک بار پھر وہی ہے جس کا سامنا مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کوتھاکہ ایک نئی انقلابی انٹرنیشنل کی ضرورت ہے۔
اسی وجہ ہے کہ لیگ فار ففتھ انٹرنیشنل، انٹرنیشنل ٹراٹسکیسٹ اپوزیشن (آئی ٹی او) اور انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ (آئی ایس ایل) نے یوکرین اور مشرق وسطیٰ کی جنگوں سے شروع ہونے والے سلگتے ہوئے عالمی مسائل پربحث کے بعد ان پر مشترکہ اعلامیہ اپنایا۔
ہم مزید جنگوں، دائیں بازو کی قوتوں میں اضافہ لیکن مزید طبقاتی جدوجہد کی پیشین گوئی کر سکتے ہیں بشمول ارجنٹائن کے محنت کشوں کو جیویئر میلی کی انتہائی نیو لبرل ”اصلاحات“ کا سامنا کرنا پڑا اور یہی وجہ ہے کہ ہم 2025 میں اس بحث کو اور زیادہ پرجوش طریقے سے آگے بڑھائیں گے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ انقلابی پروگرام پر اکھٹے ہوسکیں گئیں جس کی بنیادی پر ہم ایک عالمی انقلابی تنظیم کی بنیاد رکھیں گئیں۔ ہم تمام انقلابی تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں جو ہمارے نکتہ نظر سے متفق ہیں اور ان بیانات سے متفق ہیں جو ہم نے اب تک شائع کیے ہیں وہ بھی بحث میں شامل ہوں۔
یہ واضح ہے کہ ایک نئی انٹرنیشنل سہ جہتی بحرانوں کے تمام محاذوں پر لڑنے کے لیے ایک ضروری ہتھیار ہے۔ عالمی سرمایہ داری کے بحران کی شدت میں اس کی تعمیر ایک اہم ذمہ داری ہے جسے آنے والے سالوں میں اس تاریخی نعرے کا منظم اظہار کرنا ہوگا ”دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ!

Posted by

in

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *