سرمایہ داری کا بحران اور کلیسائی فاشزم کے خطرات

Posted by:

|

On:

|

تحریر:عمران جاوید

پاکستانی ریاست کا بحران شدید تر ہے اور مختلف ریاستی اداروں کے درمیان اور ان کے اندار بھی تضادات اور کشمکش ہے۔اس کی بنیادی وجہ سرمایہ داری کا تیز تر بحران اور پاکستان کی نیم نوآبادیا دیتی پوزیشن ہے جس میں ریاست نے ہمیشہ سامراجی مفادات کو پورا کرنے اور اشرافیہ کی ضروریات کے لیے ایسی پالیسیاں اپنائیں جس سے ایک طرف قومی جبر اور تقسیم میں اضافہ ہوا ہے اور دوسری طرف مذہبی قوتوں پھیلایا گیا تاکہ ترقی پسند نظریات اور جمہوری تحریکوں کو روکا جاسکا۔
اس سب میں افغان جہاد کے درمیان بہت اضافہ ہوا جہاں مذہبی قوتوں کی حوصلہ افزائی کرکے امریکی سامراج آشیرباد میں افغانستان کو خانہ جنگی میں دھکیلا گیا اس کے ساتھ ان قوتوں کی وجہ سے جمہوری تحریکوں اورلیفٹ پر کاری وار کیا گیا لیکن یہ سلسلہ یہاں رکا نہیں بلکہ مختلف شکلوں میں سماج پر ریاست کے تعاون سے مسلط رہا۔اس میں چاہیے ضیاء الحق کی مذہبی آمریت ہو، مشرف کا لبرل چہرہ یا بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان جمہوری تماشہ ہو اس سب میں ہی حکمرانوں نے مذہبی انتہاء پسندی کو اپنے مفادات میں فروغ دیا۔مشرف کے عہد میں اور بعدازں جب گڈ اور بیڈ طالبان کا سامنا تھاتو طالبان کے مقابلے میں بریلوی مسلک کو ریاستی سرپرستی حاصل ہوئی کہ یہ ان کا مقابلہ کریں اس میں امریکی سامراج کی بھی حمایت تھی۔
چند سالوں میں جس طرح نظام کا بحران بڑھ ہے اس سے پیٹی بورژوا شدید ہیجان میں مبتلا ہے جبکہ شہری و دیہی غریب کچلا گیا ہے اور محنت کش طبقہ پر بھی مسلسل حملے ہورہے ہیں جبکہ اس وقت قومی معیشت کے نام پر جس طرح جمہوری حقوق اور سیاسی عمل پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں اس میں ایک نہایت ہی خوفناک قوت ٹی ایل پی کی صورت ابھر رہی ہے جو مذہبی حوالے استعمال کرکے نفرت کی سیاست کو پروان چڑھ رہی ہے اورسرمایہ داری کے بحران اور حکمران طبقہ کی تقسیم اور ٹکراؤ میں اس کی گنجائش بن رہی ہے اور یہ مسلسل جگہ گھیر رہی ہے۔
حالیہ عرصہ میں بلاسفمی کی بنیاد پر قتل،حملوں اور آبادیوں کے گھیراؤ میں اضافہ ہوا ہے۔جڑانوالہ میں مسیحیوں پر حملے اور ان کے گھروں کو جلانا،اس کے بعد متوتر ایسے واقعات ہوئے جن میں مسیحوں پر حملہ یا ان کو ہراساں کیا گیا۔سوات میں سیالکوٹ کے رہائشی کو توہین کے الزام میں قتل کرنا،جے کے ایل ایف کے راہنما توقیر گیلانی اور جے کے این ایس کے راہنماؤں سمیت دیگر عوامی تحریک کی قیادت پر الحاد کے فتوی،بلوچ یکجہتی کمیٹی کی راہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ پر گستاخی الزامات کے بعد کوئٹہ اور عمر کوٹ میں پولیس کی تحویل میں قتل ایک خوفناک صورتحال کی تصویر کشی کررہی ہے۔
یہ سب ایسی صورتحال میں ہورہا ہے جب نظام شدید بحران کا شکار ہے اور اس کے خلاف ہر طرف ہی تحریکیں ابھر رہی ہیں جن کے خلاف ریاستی پشت پناہی میں ایسے الزامات لگائے جارہے ہیں تاکہ نظام کے خلاف غصہ اور نفرت کو روکا جاسکے اس میں ٹی ایل پی کا کردار بہت بنیادی ہے جہاں چند سال پہلے لاہور سے شروع ہونے والی جماعت اب کشمیر سے لے کر بلوچستان تک میں سرائیت کرگی ہے۔ان کو اس عمل میں ریاستی مدد تو ہے لیکن سرمایہ دارانہ بحران،حکمران طبقہ میں کشمکش اور سیاسی عمل میں رکاوٹیں ان کے لیے زرخیز زمین کا کام کررہی ہیں اور ان کے پھیلاؤ اور وحشت و بربریت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
اس صورتحال کا سامنا اقلیتوں کو علاوہ مسلمانوں کو بھی ہے اکثر اس کی وجہ ذاتی رنجش یا عناد ہوتا ہے جس میں توہین کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔بلاسفیمی قوانین میں ترامیم کے ذریعے ان کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ بلوائی اس کو اپنے ہاتھوں میں لے رہے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق 2021 تک پاکستان میں 89 افراد کو ”توہین“ کے الزام میں قتل کیا گیا ہے ان میں سے 60 سے زائد واقعات 1990ء کے بعد ہوئے ہیں۔ 1987ء سے 2021ء تک 1885 افراد پر بلاسفیمی کے الزام میں فرد جرم عائد کی گئی۔یو این ایچ ٓرسی پی کے مطابق 2020ء سے 2022تک64 افراد کو توہین کے مقدمات کا سامنا تھا جو کہ 2022 میں بڑھ کر 213 اور جون 2024ء تک 705 تک پہنچ گے ہیں جن میں اکثریت کی عمر 30 سال سے کم ہے۔ ڈان اخبارکے مطابق اس وقت پاکستان میں 215 افراد بلاسفیمی کے الزامات کے تحت زیر حراست ہیں۔ بیشتر افراد کو موت کی سزا یا عمر قید کا سامنا ہے۔ صورتحال اتنی خوفناک ہوگی ہے کہ علماء کو بھی توہین کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا جب وہ کسی معاملہ کی تشریح کررہے ہوتے ہیں اور ان کے خلاف مقدمات درج ہورہے ہیں۔کچھ دن پہلے کراچی سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا پرمشہور مولانا کو کینیڈا بھاگنا پڑ ا۔
اس بحران میں جہاں کلیسائی فاشزم پھیلا رہا ہے وہاں اس کے خلاف کشمیر اور سندھ میں زبردست مزاحمت جنم لے رہی ہے۔کشمیر میں عوامی تحریک اور خاص کر اس کے ہراول حصہ پر جس طرح الزامات لگائے گے اور ان کی زندگی کو دشوار بنادیا گیا اسکے ردعمل میں جس طرح کشمیر میں عوامی تحریک نے جواب دیا اس نے ملاؤں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔
سندھ میں جس طرح ڈاکٹر شاہنواز پر الزام عائد کیا گیا یہ ظاہر کررہا ہے کہ نفرت کو کس طرح فروغ دیا جارہا ہے بعدازں بغیر کسی شواہد و تحقیقات کے اس کو پولیس کی تحویل میں قتل کر دیا گیا اور نفرت اور خوف کو پھیلانے کے لیے اس کو لاش کی بے حرمتی اور جلانے کی کوشش کی گئی لیکن وہاں پریمو کولہی نامی ایک ہندو نے اس لاش کو اپنے کندھوں پر رکھ کر اسے درندوں سے بچایا۔

اس وحشت اور بربریت نے پاکستان بھر میں لوگوں کو ہلادیالیکن سندھ بھر سے ترقی پسند و قوم پرست کارکنان اور عام لوگ اس وحشت کے خوف سے انکار کرتے ہوئے امر کوٹ پہنچ گے۔ڈاکٹر شاہنواز کی قبر پر امن کے گیت گائے گئے اورمذہبی جنونیت کے خلاف احتجاج کیا گیا جو سندھ کے دیگر شہروں میں بھی پھیل گیا۔اس طرح عوام نے اس وحشت اور جنونیت کو مسترد کردیا اور مطالبہ کیا کہ اس قتل اور بے حرمتی کی پشت پناہی کرنے والوں کوسزا دی جائے۔حالانکہ ابتدا میں سندھ حکومت نے ملزمان کو بچانے کے لیے کوشش کی لیکن لیکن عوامی غیض و غصب کے سامنے پیپلز پارٹی کی حکومت جھکنے پر مجبور ہونا پڑا اور وزیر داخلہ سندھ کی طرف سےاسے ماورائے عدالت قتل قرار دیا گیا لیکن اس سب کے باوجود پی پی پی کی قیادت کا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ اس لڑائی میں ریاست اس کے اداروں اور سیاسی جماعتوں سے کوئی امید نہیں لگائی جاسکتی ہے۔
سندھ اور کشمیر کی مثال سے یہ واضح ہے کہ اس کلیسائی فاشزم کو عوامی ردعمل سے ہی شکست دی جاسکتی ہے۔اس لیے ان معاملات پر خاموشی کوئی حل نہیں ہے بلکہ وسیع تر اتحاد کے ذریعے نفرت کی اس سیاست کو مسترد کرنا ہوگا لیکن اس کے لیے ضروری ہے محنت کش اور عام لوگوں سے بات کی جائے اور مذہبی انتہاء پسندی کو مسترد کرتے ہوئے عوامی مسائل اور مشکلات پر جدوجہد منظم کی جائے۔

Posted by

in