انقلابی سوشلسٹ
بھارت اور پاکستان کے درمیان پہلگام حملے کے بعد سے کشیدگی میں شدید اضافہ ہوا اور 7مئی کو بھارت کے حملے نے دوایٹمی طاقتوں کو مکمل جنگ کے دھانے پر پہنچادیااور اگلے 4دن تک جاری رہنے جھڑپوں نے نیوکلیئر جنگ کے خدشات کو جنم دیا جس کے بعد امریکہ کی مداخلت سے 10مئی کوجنگ بندی ہوئی اس کا اعلان ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر کیا۔
جنگ کے خاتمے کے بعد اب دونوں اطراف سے فتح کے شادیانے بجائے جارہے ہیں۔بھارتی میڈیا جس نے کراچی اور لاہور کو تباہ کرنے اور اس پر قبضے کی خبریں چلائیں تھیں۔یہ ایک بار پھر جنگ اور برتری کے ٹھول بجارہا ہے۔یہ بھارتی عوام کو بتانے کی کوشش کررہا ہے کہ بھارت نے کیسے اس جنگ میں پاکستان کو شکست دی ہے اور بھارتی حکمران جماعت کہہ رہی ہے کہ ابھی تک آپریشن سندور ختم نہیں ہوا ہے۔
پاکستانی کا حکمران طبقہ اور میڈیا بھی فتح کے دعوے کررہا ہے۔ یہ جنگ میں رافیل اور دیگر طیاروں کو گرانے کو ایک اہم کامیابی قرار دئے رہے ہیں اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پاکستان اب عالمی سطح پر اکیلا نہیں ہے بلکہ اسے سفارتی سطح پر اہم کامیابیاں ملی ہیں اورچین وترکیہ ہماری حمایت کررہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اس خطے میں بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے اس کے ساتھ وہ پاکستان کا بھی چین کے حوالے سے کم ازکم نیوٹرل کردار چاہتا ہے لہذاوہ ان دو ممالک کے درمیان ایک مکمل جنگ نہیں چاہتاہے۔امریکہ کی یہ مداخلت واضح طور سامراجی ممالک کے درمیان دنیا کی ارسرنو تقسیم کی جدوجہد کا حصہ ہے۔
بھارت میں مودی سرکار نے جنگی جنون کو بڑھاو دیا تاکہ بہار میں ہونے والے ریاستی الیکشن سے پہلے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو۔اس کے علاوہ محنت کش عوام کی توجہ ملک کو درپیش معاشی مسائل جیسے بڑھتی ہوئی بے روزگاری و عدم مساوات،غربت اور دیگر مسائل سے ہٹائی جاسکے۔ان جھڑپوں کے بعدبھارت میں فوجی بجٹ میں 50000کروڑ اضافہ متوقع ہے جبکہ مودی سرکار کسانوں اور مزدوروں کو حاصل سبسڈیز کو ختم کررہی تاکہ سرمایہ دار طبقہ کے منافع میں اضافہ کیا جاسکے اورہر طرح کی مخالفت اور تنقید کو کچلا جارہا ہے تاکہ بھارتی حکمران طبقہ کے علاقائی ؑعزائم کو پورا کیا جاسکے۔
پاکستان جس کی معیشت آئی ایم ایف کے پروگرام اور قسطوں پر ٹکی ہوئی ہے اور اس کے لیے یہ اداروں کی نجکاری اور نوکریاں ختم کررہے ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ متاثر ہوں گئیں لیکن دوسری طرف فوجی بجٹ میں 18سے 21فیصد اضافہ متوقع ہے۔یہ ظاہر کرتا ہے کہ دونوں ممالک کی کشمیر پر قبضے کی لڑائی اورعلاقائی عزائم کس طرح محنت کش اور غریب عوام کی زندگی اجیرن بنا رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی پاکستانی ریاست کے مظلوم اقوام پر حملوں میں تیزی آگئی ہے۔اس میں پہلا حملہ عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کی قیادت پر ہوا ہے جس میں کامریڈ احسان علی سمیت دیگر راہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا۔اسی طرح بلوچستان میں بی وائی سی اور خیبر پختوانخواہ میں پی ٹی ایم پر کریک ڈاؤن جاری ہے۔جبکہ کشمیر میں ہونے احتجاج کو بھی روکا گیا ہے جو اس جنگ میں کشمیریوں کے قتل عام کے خلاف اقوام متحدہ کو اپنی گزارشات پیش کرنا چاہتے تھے۔اسی طرح سندھ میں کینال مخالف تحریک کے سرکردہ افراد کو بھی جبر و تشدد کا سامنا ہے۔
ریاست جموں وکشمیر پر قبضے کی کوشش ہی دونوں ریاستوں میں وجہ تنازعہ ہے۔یہ ایک ایسا تضاد ہے جس نے دونوں ایٹمی طاقتوں کو جنگ کے دھانے پر پہنچا دیا تھا۔
ان چار روزا جھڑپوں نے خطے میں انتہائی خوفناک صورتحال پیدا کردی ہے لیکن اس کی قیمت ہمیشہ کی طرح کشمیریوں نے ہی ادا کی اور ان جھڑپوں میں دونوں اطراف بڑی تعداد میں کشمیریوں کی ہلاکتیں ہوئیں ہیں۔
بھارتی ریاست‘’دہشت گردی‘’کے خلاف لڑنے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن درحقیقت رجعتی مودی سرکارکا جابر اپنی انتہاء پر ہے اور اس نے کشمیر کے عوام کو بنیادی حق خوداردیت سے بھی محروم رکھا ہواہے۔بھارتی حکمران طبقہ محنت کش طبقے کو تقسیم اور مظلوموں کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے مسلم مخالف نسل پرستی، خواتین پر جبر، ذات پات کا نظام اور ہندو قوم پرست غنڈوں کے گروہوں کی مدد اورانہیں تشکیل دیتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ جنگ کی دھمکی کا مقصد بھارتی عوام کو حکومت کے پیچھے اکٹھا کرنا ہے۔
پاکستانی حکومت کا رویہ بھی انتہائی منافقانہ ہے۔ یہ کشمیر کی آزادی اور دفاع کا دعویٰ کرتی ہے لیکن حالیہ مہینوں میں اس نے کشمیر میں عوامی تحریک کو کچلنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اس وقت گلگت بلتستان میں کریک ڈاؤن جاری ہے۔ یہ کشمیر، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں مظلوم اقوام کے حق خود ارادیت کو نہیں مانتی ہے۔یہ مودی سرکار کی مذمت کرتی ہے کہ وہ“دہشت گردی”کو کشمیریوں پر ظلم کرنے کے جواز کے طور استعمال کر رہی ہے جبکہ پاکستانی حکومت بھی“دہشت گردی”کو جواز بنا کر لاکھوں افغان مہاجرین کو ملک بدر کررہی ہے۔
دونوں طرف بورژوا پارٹیاں قومی دفاع کو جواز بنا رہی ہیں۔ حکومت ہو یا اپوزیشن تمام جماعتوں نے واضح کر دیا ہے کہ محنت کش حکمران طبقہ سے جنگ کی مخالفت کی امید نہ رکھیں۔نام نہاد ہندوستانی کمیونسٹ پارٹیاں (سی پی آئی/سی پی ایم) سماجی شاونسٹ پارٹیاں ہیں۔ یہ اپنے حکمران طبقہ کے جنگی موقف کی حمایت کررہی ہیں۔یہ عالمی محنت کش طبقہ کے مفاد سے غداری ہے۔ پاکستان میں یہی کردار حقوق خلق پارٹی کا ہے جو مودی کے ہنداتوا کے نام پر اپنے حکمران طبقہ کا دفاع کررہی ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ دونوں اطراف سے مکمل طور پررجعتی ہے۔ دونوں ریاستوں کے محنت کش طبقے اور مظلوم عوام کو چاہیے کہ وہ جنگ کے خلاف منظم ہوں جو بھارت، کشمیراور پاکستان میں مزدوروں، کسانوں اورعام شہریوں کے لیے تباہی کا باعث ہوگی۔
جنگ میں فتح کے اعلانات کو سرمایہ کے مفاد میں بدلنے کے لیے قوم پرستی، شاونزم اور نسل پرستی کی نفرت کو بڑھاوا دیا جارہا ہے۔اس کے ساتھ یہ قومی آزادی کی جدوجہد کو کچل رہے ہیں، نوکریوں اور پنشن پر حملے کیا جارہے ہیں تاکہ سرمایہ دار کے لیے منافع اور لوٹ مار کو بڑھایا جاسکے جس کے نتیجہ میں مزدوروں اور غریبوں کے لیے غربت،مہنگائی اور بیروزگای میں مزید اضافہ ہو گا۔
ہم اس جنگ کی مذمت کرتے ہیں جو کشمیر کے مظلوم عوام کی مرضی کے خلاف مسلط کی گئی۔ ہم پاکستان اور بھارت میں مظلوم اقوام پر ہونے والے مظالم کی مخالفت کرتے ہیں اور کشمیری عوام کی قبضے کے خلاف مزاحمت کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم کشمیر کے حق خود ارادیت اور ایک آزاد اور خود مختار سوشلسٹ کشمیر کی حمایت کرتے ہیں جو جنوبی ایشیا کی سوشلسٹ فیڈریشن کا حصہ ہو۔
محنت کش طبقے، ٹریڈ یونینوں، نوجوانوں اور خواتین کی تنظیموں کو حکمران طبقہ کے جنگی مقاصد کی مخالفت کرنی چاہیے۔ جنگ مخالف جدوجہد کو استحصال، جبر اور قوموں کے درمیان تنازعات پر مبنی سامراجی و سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد سے جوڑنا ہوگا۔
Leave a Reply