ہندوستان: ہندتوا کے خلاف شعوری جدوجہد سے ہی بی جے پی کو شکست دی جاسکتی ہے

Posted by:

|

On:

|

تحریر:شہزاد ارشد

نریندر مودی تیسری مدت کے لیے وزیراعظم منتخب ہوگے ہیں اس کا خاص آدمی امیت شاہ بھی دوبارہ وزیر داخلہ بن گیا ہے۔مودی 2-0کے زیادہ تر وزراء کابینہ میں شامل ہیں۔حلف برداری کی تقریب میں مودی نے بارہا اس بات کا ذکر کیا کہ یہ این ڈی اے کی سرکار ہے۔  پچھلے دو انتخابات کے برعکس اس دفعہ بی جے پی نے اتنی نشستیں نہیں حاصل کی تھیں کہ وہ خود سے حکومت بناتی بلکہ اسے اتحادیوں خاص کر نتیش کمار کی جنتا دل یونائیٹڈاور ٹی ڈی پی کے چندربابو نایڈو کی حمایت کی ضرورت تھی اور یہ حکومت این ڈی اے کے تعاون کے بغیر نہیں بن سکتی تھی۔

کارپوریٹ میڈیا کاایگزیٹ پول

 ان نتخابات میں 640 ملین لوگوں نے ووٹ ڈالے جس میں ووٹروں کاتقریباً نصف خواتین تھیں۔19اپریل سے 6 مرحلوں میں ہونے والے انتخابات یکم جون کو ختم ہوئے اور اس کے ساتھ ہی ایگزیٹ پول کا سلسلہ شروع ہوگیا جس میں تقریباََ تمام ایگزیٹ پول بی جے پی کی فتح کی نوید سنا رہے تھے۔ان کے مطابق بی جے پی اور این ڈی اے الائنس کو 350 سے 410کے درمیان سیٹیں مل رہی ہیں۔یہ ایگزیٹ پول مکمل طور بی جے پی کی امیدوں کے مطابق تھے اور ساے کا سارا کارپوریٹ میڈیا یہی راگ الاپ رہا تھا کہ مودی جیت گیا ہے اور اسے ناقابل تسخیر قرار دیا جارہا تھا۔مودی نے انتخابات کی کمپین کے دوران کہا کہ وہ بالوجیکل انسان نہیں ہے بلکہ بھگوان نے اسے بھیجا ہے۔

ایگزیٹ پول کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ نے ایک تاریخی بلندی حاصل کی لیکن الیکشن رزلٹ کے اگلے ہی دن تقریباََ اتنے ہی نقصان کا سامان کرنا پڑا جو ایک ہفتہ میں برابر ہوگیا اس میں بڑے سرمایہ داروں نے بڑا منافع بنایا۔کانگرس راہنما راہول گاندھی اسے ایک فراڈ قرار دئے رہے ہیں اور کہا ہے کہ ایک سازش کے ذریعے بڑے سرمایہ داروں خاص کر مودی کے حامیوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔

الیکشن نتائج بی جے پی کے لیے دھچکا

وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے انتخابات میں 240 نشستیں حاصل کیں جو کہ 272 سے کم ہیں جوسو لوک سبھا (بھارت کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں) میں اکثریت کے لیے ضروری ہیں جس کی کل 543 نشستیں ہیں۔ان انتخابات میں بی جے پی کو2019کی نسبت63سیٹیں کم ملیں لیکن این ڈی اے الائنس کے ساتھ یہ تعداد 293ہے۔یہ نتائج مودی کے لیے ایک ذاتی دھچکا ہیں جس نے ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ اور ہندوستان کے وزیر اعظم دونوں کے طور پر انتخابات میں ہمیشہ اکثریت حاصل کی ہے اور ایک دہائی تک مرکز میں حکومت کو آمرانہ انداز میں چلایاہے۔

یہ نتائج کانگریس پارٹی کی زیرقیادت انڈیاپوزیشن اتحاد کے لیے ایک حیرت انگیز بحالی ہے حالانکہ مودی نے کہا تھا کہ کانگرس اس دفعہ اتنی نشستیں بھی حاصل نہیں کرئے گی جتنی راہول گاندھی کی عمر ہے لیکن اس کے برعکس کانگرس نے لوک سبھا میں اپنی نشستیں تقریباََ دوگنی کرلی ہیں حالانکہ 2019میں ہونے والے الیکشن کی نسبت اس نے100کم نشستوں پر انتخابات میں حصہ لیاتھا اور انڈیا الائنس نے240نشستیں حاصل کیں۔اس نے کارپوریٹ میڈیا اور اس کے پری پول اور ایگزیٹ پول کو مکمل طو ر پر غلط ثابت کیا اور مودی کا تکبرخاک میں مل گیا۔

مسلم مخالف نسل پرستی

مودی نے الیکشن مہم کا آغاز رام مندر کی افتتاحی تقریب سے کیا تھا اور اسے امید تھی کہ ایک کمزور اپوزیشن اتحاد کو آسانی سے شکست دی جاسکتی ہے۔اس لیے مودی نے ”کانگرس مکت بھارت“اور ”اس بارے400پار“کا نعرہ لگایا۔مودی کی ساری الیکشن کمپین نفرت پر مبنی تھی جس میں مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیاان کو درانداز اور زیادہ بچے پیدا کرنے والا قرار دیا۔یہ کہا گیا کہ کانگرس اقتدار میں منگل سوتر(ہندو دلہنیں ان کو شادی کے مواقع پر پہنتی ہیں)مسلمانوں کو دئے دے گی اسی طرح کہا کہ گائے (گائے ہندو مذہب میں مقدس ہے)بھی مسلمانوں میں تقسیم کردی جائیں گئیں۔کانگرس پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ اوبی سیز کی ریزرویشن کو مسلمانوں کو دئے دے گی۔یہ ساری مہم جھوٹ،فریب اور نفرت کی بنیاد پر تھی اور مودی یہ سمجھتا تھا کہ اسی تقسیم کے ذریعے وہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرلے گا بلکہ اپنی نشستوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ کرلے گا۔

اپوزیشن پر حملے

اپوزیشن پر مسلسل حملے بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی کا ایک اور اہم جز تھے۔ اس سلسلے میں مختلف سیاسی جماعتوں میں سپلیٹ کروانے سے لے کر اپوزیشن کی مختلف پارٹیوں کے راہنماؤں کو ای ڈی،سی بی آئی اور دیگر ایجنسیوں کے ذریعے ان کو ان کی پارٹیوں سے توڑا گیا اور انہیں بی جے پی اور اس کے اتحاد میں شامل پارٹیوں میں شامل کیا تاکہ اپوزیشن کو کمزور کیا جاسکے۔کانگرس پارٹی کے اکاؤنٹ منجمند ہیں تاکہ وہ انتخابی مہم میں بھرپور طور پر شریک نہ ہوسکیں اور دو وزراعلیٰ سمت7ریاستی وزراء کو گرفتار کیا گیا۔

ترقی اورمحنت کش عوام

کانگریس اور انڈیا اتحادکو ملنے والے ووٹ اور سیٹوں میں اضافہ ایک مضبوط حکومت مخالف لہر کوواضح کرتاہے (جو کہ موجودہ حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی معاشی ناراضگی اور انتخابی مایوسی کے مشترکہ جذبات پر مبنی ہے اور حکومتی اقدامات سے مایوسی کو ظاہر کرتا ہے)۔یہ مودی سرکار کے خلاف عوامی نفرت اور غصہ تھا جس نے بی جے پی کو ایک بڑا انتخابی نقصان پہنچایاہے۔

مسلسل قیمتوں میں اضافے کے معاشی مسائل (مہنگائی)، روزگار کے بغیرترقی،سست نجی سرمایہ کاری،حقیقی اجرت کا جمود،دولت اور آمدنی میں عدم مساوات کابڑھانا،ضروری سماجی بہبود کے پروگراموں (ایم جی این آر ای جی اے، نیوٹریشن پروگرامز وغیرہ) کے لیے مختص رقم میں کٹوتی وغیرہ وہ تمام عوامل ہیں جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگوں نے خاص طور پر دیہی علاقوں میں  شمال، مغرب اور جنوب کے کچھ حصوں نے بی جے پی کے خلاف بھاری ووٹ دیاہے۔امکان ہے کہ یہ دیہی اور نیم شہری ووٹر مستقبل میں بھی ان مسائل سے گہرے طورپر متاثر ہوتے رہیں گے۔

ہندوستان تیز رفتار ترقی سے جو فوائد ہوئے یہ امبانی،اڈانی،بڑے سرمایہ داروں اور اپر مڈل کلاس کو ہوئے ہیں جن کے منافع کے لیے مودی سرکارنے تمام محنت کش دشمن پالیسیاں بنائیں۔یہ تیز رفتار ترقی اپنے ساتھ خارجہ پالیسی میں بھی تبدیلی لائی ہے اورکانگرس بھی اسی خارجہ پالیسی کی حامی ہے بلکہ اس سمت میں ابتدائی اقدامات کانگرس کی حکومت نے ہی اُٹھائے تھے۔

نئی مودی حکومت تبدیلی نہیں ہندتواکا تسلسل

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے پاس پارلیمنٹ میں اکثریت نہیں ہے اور پھر بھی مودی 3.0 حکومت اسی تکبر اور ایجنڈے کے ساتھ اقتدار میں واپس آئی ہے۔ یہ تبدیلی نہیں تسلسل کا پیغام ہے۔تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) اور جنتا دل (یونائیٹڈ) چھوٹے اتحادیوں کے مل کر مودی کو نئے ہندوستان کا پیشوا قرار دئے رہے ہیں۔ایک غیر معمولی انداز میں 9 جون کو 72 وزراء نے حلف لیا جن میں سے 60 وزراء بی جے پی کے تھے۔تمام فیصلہ کن وزارتیں جو حکومت کے سیاسی کردار کی وضاحت کرتی ہیں جیسے کہ داخلہ، دفاع، خزانہ، خارجہ امور اور اس طرح کی دوسری وزارتیں نہ صرف بی جے پی نے اپنے پاس رکھی ہیں بلکہ انہی وزراء کو بھی دی گئی ہیں جو مودی 2.0 میں ان کے انچارج تھے۔

مسلمان ملک کی آبادی کے14فیصدسے زیادہ ہیں۔اس کے باوجود اس وقت اسمبلی میں صرف22مسلم ممبرز ہیں۔بی جے پی اور اس کے الائنس طرف سے ایک بھی مسلم ممبر لوک سبھا کا حصہ نہیں ہے اور بی جے پی نے عیسائی اور سکھوں کے غیر منتخب بی جے پی کارکنان کو وزارت میں شامل کیا ہے لیکن بی جے پی کے ایک بھی مسلمان رکن کووزیر نہیں بنایا گیا۔

مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد وزراء نے جو بیانات دیئے ان میں یکساں سول کوڈ اور نئے اور سخت مجرمانہ قوانین کے نفاذ جیسے زیر التواء مودی 2.0 ایجنڈے کی تکمیل کے لیے عزم کااظہار کیا گیاہے۔مودی کے دوبارہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد سے مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور گجرات میں مسلمانوں پر حملے دوبارہ شروع ہو گئے۔

اختلاف رائے کی ہندوستان کی سب سے اہم آوازوں میں سے ایک مصنفہ اروندھتی رائے کے خلاف 14 سال پہلے کی گئی تقریر کے لیے قانونی چارہ جوئی کی اجازت دی گئی ہے یہ ظاہر کرتا ہے کہ نئی حکومت پچھلی پالیسیوں کے تسلسل کو برقرار رکھے ہوئی ہے۔

 نئی حکومت کے ابتدائی اقدامات واضح طور پر تسلسل کا پیغام ہے اور کوئی حقیقی تبدیلی موجود سرکار میں ممکن نہیں ہے۔بی جے پی 240 نشستوں تک محدود ہوگی ہے اور یہ سادہ اکثریت سے 32 سیٹیں کم ہیں اوربی جے پی نے 2019 کے مقابلے میں 63نشستیں کم حاصل کی ہیں جس میں اتر پردیش میں سب سے بڑا نقصان ہوا ہے اور اس نے وہاں  30 سیٹیں ہاریں ہیں اور اس نے ایودھیا کی نشست بھی ہاری ہے جہاں رام مندر کا افتتاع کیا گیا تھااور وارانسی میں مودی خود بہت کم مارجن سے جیتے ہیں۔ ہریانہ، راجستھان، مہاراشٹر، اور مغربی بنگال میں، بی جے پی کی کارکردگی توقع سے بہت کم رہی ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے اہم ووٹ شیئر اور سیٹیں دونوں کھو دی ہیں۔ یہ تمام نتائج یقیناً مودی اور ان کی ٹیم کی اخلاقی شکست ہے۔

لبرل اور لیفٹ کی خوش فہمی

لبرل اور لیفٹ میں یہ خوش فہمی ہے کہ کیونکہ مودی حکومت اتحاد بالخصوص ٹی ڈی پی اور جے ڈی (یو) کی حمایت پر منحصر ہے اس لیے مودی اور بی جے پی اپنے سخت گیر ایجنڈے کو پچھلی دور کی طرح نفاذ نہیں کرسکتی ہے اور مودی سرکار آمرانہ انداز کی بجائے اتحاد سے مشاورات سے چلی گے لیکن کابینہ میں وزارت نہ ملنے پر نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کی طرف سے چھوٹی سی شکایت علاوہ کسی بھی پارٹی نے اختلاف نہیں کیاہے بلکہ جے ڈی (یو) کے سربراہ نتیش کمار نے این ڈی اے پارلیمانی بورڈ کی میٹنگ میں مودی کے پاؤں چھو کر ہتھیار ڈالنے کے اشارے کیاہے۔ پارٹی کے دیگر سینئر لیڈران جیسے کے سی تیاگی نے اسپیکر کے عہدے کے لیے بی جے پی کے امیدوار کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے اور بی جے پی کے یو سی سی کے خیال سے اتفاق کیا ہے۔ جے ڈی (یو) نے یہاں تک اعلان کیا ہے کہ وہ اگنی پتھ اسکیم کے مخالف نہیں ہیں اور صرف اسکیم کی کچھ شقوں پر نظرثانی کی درخواست کرتے ہیں۔ ذات پات کی مردم شماری پرجے ڈی (یو) نے بغیر کسی دباؤ کے صرف اس کی ضرورت کا اعادہ کیا ہے۔

اتحادیوں پراس تسلط کی وجوہات واضح ہیں۔ بہار میں مینڈیٹ بہت پرامید نہیں ہے۔ بی جے پی اور جے ڈی (یو) دونوں کو زیادہ سیٹیں ملی ہیں لیکن ان کا ووٹ شیئر 2019 کے مقابلے میں کم ہوا ہے اور ووٹ شیئر کے لحاظ سے انڈیا اتحاد میں بڑھوتری ہوئی ہے۔ چونکہ بہار قانون ساز اسمبلی کے اگلے سال انتخابات ہونے والے ہیں اس لیے اس اتحاد کوبرقرار رکھا کر ”ڈبل انجن سرکار” کے کچھ مثبت فوائد دکھا نے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ٹی ڈی پی کی طرف سے آندھرا پردیش میں چندرابابو نائیڈو کی بطور وزیر اعلیٰ حلف برداری کی تقریب کے مناظر اور ڈائس پر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی خوش مزاجی نے واضح کر دیا ہے کہ یہ اتحاد برقرار رہنے والا ہے۔ مودی حکومت وسائل کے لیے نائیڈو کے مطالبات کو پورا کرتی نظر آرہی ہے۔

ایسا اس لیے ہے کہ نائیڈو کی قیادت والی ٹی ڈی پی اور نہ ہی نتیش کی قیادت والی جے ڈی (یو) نظریاتی یا سیاسی طور پر مودی کی بی جے پی کی نیولبرل ہندوتوا پالیسیوں کے خلاف ہے۔ درحقیقت جے ڈی (یو) نے پہلے ہی بی جے پی کے ذریعہ پیش کئے گئے تمام سخت بلوں کی حمایت کی ہے جن کا مقصد 17ویں لوک سبھا میں خفیہ طور پر ہندو راشٹرکے ذریعے آئین کو کالعدم کرنا،سی اے اے، آرٹیکل 370 کی منسوخی، نئے مجرمانہ بل وغیرہ  شامل ہیں۔

مزید یہ ایک پری پول الائنس ہے اور جے ڈی (یو) یا ٹی ڈی پی کو مودی کی نفرت انگیز پولرائزنگ انتخابی تقاریر پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔

نائیڈو  1995-2004 کے درمیان غیر منقسم آندھرا پردیش کے چیف منسٹر کے طور پر اپنے دور میں کارپوریٹس کے کہنے پر نیو لبرل اقتصادی پالیسیوں کو نافذ کرنے کے لیے آندھرا پردیش ریاست کو ایک جابرانہ پولیس ریاست میں تبدیل کرنے میں مودی سے سینئر ہے۔ درحقیقت وہ 1999-2004 کے درمیان واجپائی کی قیادت میں این ڈی اے کے کنوینر تھے جس کے دوران مودی کے وزیر اعلیٰ کے دور میں گجرات میں مسلم نسل کشی ہوئی تھی۔

اجیت پوار کی شیو سینا یا این سی پی جیسے چھوٹے اتحادیوں کو مودی حکومت کے ساتھ نہ تو سیاسی نظریاتی مسئلہ ہے اور نہ ہی وہ مہاراشٹر میں اس الیکشن کے بعد جب وجودی بحران کا سامنا کر رہے ہیں تو بی جے پی کی مخالفت کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ مہاراشٹر میں ان پارٹیوں کا مستقبل اور بہار میں لوک جن شکتی پارٹی (ایل جے پی) اور مانجھی کی پارٹی کا مستقبل بی جے پی کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے۔

کرناٹک کی جے ڈی (ایس) جس کے نام میں ”سیکولر” ہے اور وہ ہمیشہ فرقہ پرستی کی سیاست پر موقع پرست رہی ہے۔ یہ جنوبی ہندوستان میں بی جے پی کے لیے اقتدار کے دروازے کھولنے کے لیے ذمہ دار ہے جب اس نے 2006 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ پچھلے سال کرناٹک میں اسمبلی انتخابات کے بعد اس کی ووکلیگاس اور مسلمانوں کی سماجی بنیاد کو بالترتیب بی جے پی اور کانگریس نے گھیر لیا تھا۔ اس نے جے ڈی (ایس) کو فیصلہ کن طور پر بی جے پی کی قیادت میں فرقہ وارانہ کیمپ کی طرف دھکیل دیا ہے۔اس طرح مودی 3.0 کو اتحادی کی طرف سے فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں ہے۔

 البتہ یہ مینڈیٹ مودی کے لیے فورتھ جنریشن کی معاشی اصلاحات لانے کے لیے کافی نہیں ہے جو محنت پر سرمائے کی آمریت کومکمل کرتی ہے۔اس کے علاوہ سماجی انصاف اور سیکولرازم کی آئینی شقوں کو کالعدم کرنے کے لیے قانون سازی نہیں کرسکتی ہے۔ اس لیے مودی 3.0 قومی اہمیت کے کسی بہانے کو بناکر 18ویں لوک سبھا کو تحلیل بھی کر سکتا ہے جہاں مینڈیٹ کی کمی وغیرہ کی وجہ سے نجات دہندہ کو زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے۔

لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ

کیمونسٹ پارٹیوں کے اتحاد نے اس دفعہ لوک سبھا انتخابات میں 8نشستیں جیتیں ہیں جو 2019کے مقابلے میں ایک اضافہ ہے لیکن یہ 2004کے مقابلے میں بہت کم ہے جب لیفٹ نے61نشستیں جیتی تھیں اور وہ ایک موثر کردار ادا کرنے کے قابل تھی۔ہم نے کیمونسٹ پارٹیوں کو تنقیدی ووٹ دینے کی اپیل کی تھی لیکن ہم انڈیا الائنس کے مخالف ہیں اور یہ واضح کیا تھا کہ کیمونسٹ پارٹیوں کو اس اتحاد سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک بورژوا اتحاد ہے اور یہ ہندتوا کے خلاف نہیں لڑئے گااور نیولبرل اکنامکس کو ہی مسلط رکھے گا یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے یہ کانگرس ہی تھی جس نے ہندوستان میں نیولبرل ازم کو 90کی دہائی میں متعارف کروایا تھا۔

ورکرزیونائیٹڈ فرنٹ

ہم کمیونسٹ پارٹیوں، ٹریڈ یونینوں اور طلباء، خواتین، کسانوں، دلتوں، قومی اور مذہبی طور پر مظلوموں کی تمام سماجی تحریکوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے بورژوا ”اتحادیوں“سے ناطہ توڑ لیں اور آنے والی ناگزیرجدوجہدوں کی تیاری کریں۔اس لیے ہم کیمونسٹ پارٹیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مودی حکومت کے خلاف ورکرز یونائیٹڈ فرنٹ کی تشکیل دئیں اور جمہوری اور سماجی حقوق پر حملوں کے خلاف تمام مظلوم پرتوں سمیت متحدہ محاذ بنائیں۔مودی حکومت کے قیام کے ساتھ ایک بار پھر بڑتے ہوئے حملوں کی وجہ سے ہمیں محنت کش طبقہ پر مبنی دفاعی ملیشیا کی ضرورت ہے جو مسلمانوں،دیگر اقلیتوں،کسانوں،طلباء پر حملوں کا مقابلہ کریں اور اسی طرح ہڑتال توڑنے والوں کے گروہوں یا ریاستی جبر کے حملوں کا مقابلہ کر سکے۔ کیمونسٹ پارٹیوں اور ٹریڈ یونین تحریک کو انہیں منظم کرنے کی ضرورت ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو اس کے لیے ان کے ممبران اور محنت کش عوام سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قیادت کو اس کے لیے مجبور کیا جاسکے۔

ہندتوا مخالفت اور ورکرز پارٹی کی تعمیر کی جدوجہد

حالیہ برسوں میں جنم لینے سی سی اے، کسانوں،طلباء اور مزدوروں کی تحریکوں میں وہ طاقت ہے جس کی وجہ سے مودی کی بی جے پی اکثریت حاصل نہیں کرپائی لیکن اس کے باوجود ہندتوا کے اثرات بہت گہرئے ہیں اور ان کے خلاف ایک شعوری جدوجہد کی ضرورت ہے۔جو واضح کرئے کہ کس طرح ہندو مسلم کی تقسیم کی بنیاد پر بی جے پی نے نیولبرل پالیسیز مسلط کررکھی ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی،بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے اور اس کی وجہ مسلمان نہیں بلکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے اور اگر ہم نے اس نظام سے نجات حاصل کرنی ہے تو ہمیں اس تقسیم کا خاتمہ کرنا ہوگا اور مل کراس آمرانہ ہندتوا حکومت کے خلاف جدوجہد کرنی ہوگی لیکن یہ جدوجہد یہیں تک محدود نہیں ہوگی بلکہ اس جدوجہد کو ہمیں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد میں بدلنا ہوگا اور محنت کشوں کی حکومت بنانے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد بورژوا ریاستی اداروں پر نہیں بلکہ محنت کشوں کے بنائے ہوئے اداروں پر ہو گی اور جدوجہدیعنی مزدوروں اور کسانوں کی کونسلوں اور مسلح مقبول ملیشیا پر مبنی ہوگی۔ ایسی حکومت بڑے پیمانے پر سرمائے کو ضبط کرے گی اور مرکزی منصوبہ بند معیشت کو منظم کرتے ہوئے عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہنگامی منصوبہ متعارف کرائے گی۔ یہ تمام استحصال زدہ اور مظلوم عوام کے لیے حقیقی مساوی حقوق اور مواقع متعارف کرائے گا۔ اس حکومت کو بنانے کے لیے ہمیں محنت کش طبقے کی ضرورت ہے جو ایسے انقلاب کے لیے قیادت فراہم کرے۔

ہندوستان میں کئی دہائیوں سے موجود ہے اس وقت شدید تر ہے اور اسے انقلابی پروگرام کی بنیاد پر ورکرز پارٹی کی تعمیر کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ حقیقی امن اور مساوات صرف محنت کشوں کی حکومت کے ذریعے ہی قائم ہو سکتا ہے جو جنوبی ایشیا کی متحدہ سوشلسٹ ریاستوں کی تشکیل کے لیے جدوجہد کا آغاز کرے۔ ہم تمام محنت کشوں، کسانوں، سوشلسٹوں اور مظلوموں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس مشن میں ہمارا ساتھ دیں اور پانچویں انٹرنیشنل کی تعمیر کا حصہ بنیں۔

Posted by

in