تحریر:شہزاد ارشد
بنگلادیش میں طلباء تحریک کی فتح لبرلز اور لیفٹ لبرل کو سمجھ نہیں آرہی ہے کیونکہ ان کے مطابق تو بنگلادیش ترقی کررہا ہے اور اس کی وجہ فوج کی سیاست میں مداخلت کا خاتمہ اور جماعت اسلامی کی قیادت کو ملنے والی سزائیں ہیں اس طرح بنگلادیش میں حسینہ واجد نے مذہبی بنیاد پرستی کا راستہ روکا ہے اور یہی سرمایہ دارانہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھی اس لیے ان کے مطابق حسینہ واجد کا ماڈل بہت زبردست جو سماجی ترقی کا باعث بنا۔
بنگلہ دیشی معیشت کی سرمایہ داروں کی ترقی تھی اس سے ان کے منافعوں میں اضافہ ہواہے۔ بنگلہ دیش کے سرمایہ دار طبقے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے یہاں کے محنت کشوں کا بدترین استحصال کیا اور انتہائی کم اجرت پر ان سے کام لے کر ہوشربا منافع کمایا ہے۔محنت کشوں کایہ بدترین استحصال ہی سرمایہ دارانہ ترقی کی وجہ ہے۔اس سرمایہ دارانہ ترقی کے نتیجے میں یہاں کے محنت کش عوام کے حالات پہلے سے بدتر ہو چکے ہیں۔
اسی وجہ سے ٹیکسٹائل اور دیگرسیکٹرز میں محنت کش بارہا اپنی تنخواہوں اور کام کی جگہ کے حالات کے حوالے سے احتجاج میں آرہے ہیں ان کے علاوہ طلباء بھی مختلف ایشواز پر کافی سالوں سے بڑی تحریکیں جنم دئے رہے ہیں۔
ان حالات میں سرمایہ دارانہ ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک آمرانہ طرز حکومت ضرورت تھی تاکہ اس استحصال کو برقرار رکھا جاسکے۔اس کے ساتھ طبقاتی ناہموری میں اضافہ اور نوجوان کی مستقبل سے ناامیدی کی وجہ سے حکمران طبقہ میں ایک خوف تھا جس کی وجہ سے حسینہ واجد نے ایک بدترین آمریت مسلط کررکھی تھی جس میں کسی قسم کی سیاسی آزادی نہیں تھی اوریہ فوج کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ سیاسی مخالفین کو عدالتوں سے سزاوں کے علاوہ جبری طور پر گمشدہ بھی کیا گیا اور کالجز اور یونیورسٹیوں میں چھترا لیگ کے ٹارچر سیل بنا رکھے تھے یہ طلباء کو خوف ذدہ کرتے تاکہ وہ حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف کوئی بات نہ کرسکیں۔ یہ سب نیولبرل سرمایہ داری کے مفاد میں ہورہا تھا جیسے لبرل اور لیفٹ لبرلز ترقی کہتے ہیں۔
اصلاح پسندوں کے مطابق پارٹی کی عدم موجودگی میں عوام اگر نظام کے خلاف جدوجہد میں آتے ہیں توایسی جدوجہد کی حمایت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس کا نتیجہ انارکی اور رجعت کی قوتوں کے مفاد میں جاتا ہے یعنی اگر کوئی تحریک آپ کنٹرول نہیں کررہے تو اس کی حمایت نہیں کرنی چاہیے ہے کیونکہ انقلاب اور ردانقلاب کا فیصلہ ہی اس بنیاد پر ہے کہ کونسی قوت اس صورتحال سے فائدہ اُٹھا سکتی ہے۔۔
اس طرح یہ سرمایہ دارانہ نظام کی آمریت کو قبول کرتے ہیں اور اس نظام کے تضادات اور جبر سے پیدا ہونے والی تحریکوں کے انقلابی ہونے سے انکار کرتے ہوئے اس سے علیحدہ رہنے کی تلقین کرتے ہیں اور پارلیمانی سیاست کو حل کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن عوام ان کی پارٹی کا انتظار نہیں کرتے اور وہ استحکام کے خاتمے کی طرف جاتے ہیں اور وبال جنم لیتا ہے۔
انقلابی سوشلسٹ یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ پروسس ہی فیصلہ کن ہوگا لیکن اگر عوام جدوجہد میں آرہے ہیں اوروہ ایک آمر کو اکھاڑ سکتے ہیں یا کھاڑ دیتے ہیں تو اس بات سے پریشان ہونے کی بجائے کہ اب فوج طاقتور ہوجائے گی ہمیں تحریک کی بنیاد پر فیصلہ کرنا چاہیے جو ریاست اور اس کے اداروں کو دھول چٹا رہی ہے۔فوج کا سربراہ اگر طلباء سے ملتا ہے یا ان کی مرضی کی حکومت کے قیام میں رکاوٹ نہیں ڈالتا تو یہ اس کی طاقت نہیں کمزوری کا اظہار ہے۔یہ درست ہے کہ فوجی قیادت موقع چاہتی ہے پھر وہ تحریک پر حملہ آور ہوگی لیکن سب کچھ پہلے سے طے شدہ نہیں ہے بلکہ یہ سب تحریک کی قیادت کی حکمت عملی، طریقہ کار اور طاقتوں کے توازن پر منحصر ہے ۔انقلابی سوشلسٹوں کا کردار تحریک کے پھیلاو کا ہونا چاہیے ہے۔ایسے میں ٹریڈ یونینز اہم ہیں کہ وہ کیسے اپنے مطالبات کے لیے سامنے آتی ہیں۔یہ کوئی نہیں کہہ رہا ہے کہ ہمیں تنظیم اور اپنی سیاست کو مضبوط نہیں بنانا چاہیے حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری تنظیم اور سیاست جمود سے زیادہ انقلاب میں پروان چڑھتی ہے۔اس لیے بنگلادیش کی موجودہ صورتحال حسینہ واجد کے اقتدار سے بہتر ہے۔
یہ کہتے ہیں انقلاب کو سامراجی ممالک اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں حقیقت یہ ہے سامراج استحکام کا حامی ہوتا ہے تاکہ سرمایہ کا منافع برقرار رہے اور اس کے عمل میں رکاوٹ نہ آئے کیونکہ انقلاب کے دوران سرمایہ کی پیدوار کا عمل رک سکتا ہے جو انہیں قبول نہیں ہے اورویسے بھی کیا سامراج انقلاب سے پہلے ریاست کو اپنے مفاد میں استعمال نہیں کررہا ہوتا ہے اور سامراج کا کردار کسی بھی مالک کی عالمی سرمایہ داری میں پوزیشن سے طے ہوتاہےلیکن ان کی عجیب منطق ہوتی ہے کہ استحکام میں ہی جمہوریت،سیکولرازم اور سماجی بہبود ممکن ہے جب کہ دنیا بھر کی صورتحال واضح کرتی ہے کہ ایسا نہیں ہے۔سرمایہ دارانہ استحکام خاص طور پر نیم نوآبادیاتی ممالک میں آمریت کو فروغ دیتا ہے کیونکہ یہ آمریت ہی ہوتی ہے جو بدترین استحصال کو قومی ترقی کے نام پر جاری رکھ پاتی ہے۔
لبرل،لیفٹ لبرل اور قوم پرست سب ہی بنگلادیش کی ترقی سے محسور تھے اور یہ جو سب ہوا ہے اس سے ان کا محل چکناچوڑ ہوگیا ہے۔ لیفٹ اورلیفٹ لبرلز کی خوش فہمیوں پر مکمل تنقید کرنی چاہیے اور واضح کرنا چاہیے کہ ان کا ماڈل کتنا غیر ہموار ہے اوراس ترقی کی قیمت جمہوریت ،سیکولرازم اور سماجی بہبود کا خاتمہ ہے۔ لیکن مظلوم اقوام کے حوالے سے کہ ان کو جس جبر اور قتل عام کا سامنا ہے اس میں ان کو قومی آزادی حل نظر آتا ہے تو ہمیں بنگلادیش کو بناد بنا کر قومی آزادی پر تنقید کرنے کی بجائے یہ واضح کرنا کہ قومی آزادی کے لیے ان کو سامراج کے خلاف بھی لڑنا ہوگا جو ہمیں بنگلادیش کی صورت میں نظر نہیں آتا جہاں قومی آزادی نے عالمی سرمایہ داری میں بنگلادیش کی نیم نوآبادیاتی پوزیشن قبول کی جس کی وجہ سے بنگلادیش نہ تو ہموار ترقی کرسکا اور نہ ہی وہاں جمہوریت اور سیکولرازم آئی اس لیے قومی آزادی سامراج اور قومی بورژوا سے لڑے بغیر ممکن نہیں ہے۔