تحریر:شہزاد ارشد
بنگلا دیش میں طلباء جدوجہد کی ایک شاندار تاریخ ہے۔ 2018میں عوامی لیگ کی حکومت نے طلباء تحریک کے دباؤ میں کوٹہ سسٹم کو ختم کردیاتھا۔ 5جون کو ہائیکورٹ نے اپنے فیصلہ کے ذریعے کوٹہ کودوبارہ کو بحال کردیا۔اس کے خلاف طلباء نے6جون کو ہی احتجاج شروع کردیا اور پھر عید کے بعد طلباء نے دوبارہ یکم جولائی سے احتجاج شروع کیا ابتداء میں طلباء احتجاج سرکاری یونیورسٹیوں تک محدود تھا پھر اس میں نجی یونیورسٹیوں کے طلباء بھی شامل ہوگے۔
یہ تحریک ”امتیازی سلوک کے خلاف طلباء کی تحریک” کے بینرزتلے شروع ہوئی۔طلباء پرامن طور پر احتجاج کررہے تھے اور یہ احتجاج مختلف شہروں کی یونیورسٹیوں میں پھیل گیا جس میں بڑی تعداد میں طلباء شریک ہورہے تھے۔جس کی وجہ سے سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کے فیصلہ پر عمل درآمد کو روک دیالیکن طلباء فوری طور پر اس کا خاتمہ چاہتے تھے انہوں نے کورٹ کے فیصلہ کو رد کردیا ۔
طلباء تحریک اگلے قدم کے طور پرمختلف سڑکوں کو بند کرنا شروع کردیا اس کے ساتھ ہی طلباء تحریک کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا اوراسے وسیع تر حمایت ملنا شروع ہوگی۔طلباء نے 7جولائی سے قومی سطح پربنگلا بند کا آغاز کردیا۔جس میں بڑے شہروں میں ٹریفک متاثر ہوئی اس کے ساتھ ٹرین کو بھی بند کردیا اور ڈھاکہ، چٹاگانگ، کومیلا، جیسور، رنگ پور اور راجشاہی جیسے بڑے شہروں میں مظاہرے شروع ہوگے۔
اسی دوران وزیراعظم حسینہ واجد نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ اگر آزادی کے لیے لڑنے والوں کی اولاد کو نوکریاں نہیں ملے گئیں تو کیایہ رضاکاروں (1971ء کی جنگ آزادی میں استعمال ہونے والے رد انقلابی جھتے) کی اولاد کو ملیں گئیں۔اس جملے نے طلباء کو مشتعل کردیا اور یہ نعرہ لگنےلگا”تم اور میں کون رضاکار۔رضاکار اور یہ کون کہتی ہے ایک آمرہے۔اس جملے نے تحریک کو مشتعل کردیا اور طالبات بھی تحریک میں بڑی تعداد میں شامل ہوگئیں۔
عوامی لیگ کے سیکٹریری جنرل کے بیان کہ چھترا لیگ کوٹہ ریفامز کے مطالبہ کرنے والوں سے نبٹ لے گی کہ بعدک چھترا لیگ کے غنڈوں نے طلباء پر ڈنڈوں،بوتلوں اورپیٹرول بموں سے حملے شروع کردیئے۔ یہ حملے مختلف یونیورسٹیز میں ہونا شروع ہوگے حتیٰ کہ اس میں طالبات پر بھی تشدد کیا گیا۔اس صورتحال کی طلباء تحریک نے بھرپور مزاحمت کی اور یونیورسٹیز سے چھترا لیگ کو نکال دیا۔
طلباء نے اس کے خلاف ملک گیر سطح پر تعلیمی اداروں میں احتجاج اور مظاہروں کی کال دے دی۔16جولائی کو طلباکے احتجاج پر چھترا لیگ اور پولیس کے تشدد اور فائرنگ سے 6طلباء کی موت ہوگی جس میں ابو سعید بھی شامل تھا جو پولیس کے سامنے ڈٹ کرکھڑا ہوگیا کہ وہ احتجاج کے حق سے پیچھے نہیں ہٹے گا اسی اثناء میں ایک گولی اس کے سینہ میں لگی اور وہ ہسپتال پہنچنے تک دم توڑ چکا تھا۔اس نے طلباء کو مشتعل کردیا اور ان کے احتجاج کی شدت میں اضافہ ہوا۔حکومت نے اگلے چند دنوں میں طلباء کے احتجاج کو خون میں نہلا دیا۔بنگلادیش کے مختلف اخبارات کے مطابق اب تک 207سے زیادہ ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔جبکہ مختلف سیاسی جماعتوں اورطلباء کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔حکومت ہسپتالوں سے لاشوں کو غائب کرنے کے ساتھ رجسٹر بھی ضبط کررہی ہے اور سی سی ٹی وی فوٹیج کو ڈیلیٹ کیا گیا ہے۔حکومت اس قتل عام کے تمام ثبوت مٹا دینا چاہتی ہے۔
حکومت نے17جولائی سے انٹرینٹ، سیلولر فون اور دیگر سروسز کو بند کردیا اور کرفیو نافذ کرتے ہوئے سڑکوں پر فوج نے پوزیشنیں سنبھال لیں۔اس کے بعد جس طرح طلباء اور عام شہریوں کا قتل عام ہوایہ 71کی جنگ آزادی کے بعدسب سے ہولناک واقعات ہیں۔ہزاروں کی تعداد میں طلباء اور سیاسی ورکرز کو گرفتار کرلیا گیااور ان پر بدترین تشدد کیا جارہاہے۔ڈھاکہ کے مختلف علاقوں کے گھروں پر مشکوک ہونے کے نشان لاگئے جارہے ہیں اور ہرروز مسلسل گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔طلباء کو مختلف جگہوں پر روک کر ان کے فون چیک کیئے جاتے ہیں اگر ان میں احتجاج کی کوئی تصویر یا ویڈ یو مل جائے تو ان کو ہراساں،تشدد اور گرفتاریوں کا سامنا ہوتا ہے۔
۔21جولائی کو سپریم کورٹ کے فیصلہ میں 93فیصد نوکریاں میرٹ پر اور 5فیصدآزادی کے لیے لڑنے والوں کی اولادوں جبکہ 2فیصدکوپسماندہ اضلاع اور معذور افراد کے لیے مختص کیا گیا۔سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد گرفتاراور شدید تشدد کا شکار ہونے والے طلبہ قائد ناہید اسلام نے احتجاجوں میں 48 گھنٹے کے وقفے کا اعلان کیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ بلیک آؤٹ کی وجہ سے حالات عارضی تعطل کا شکار ہیں کیونکہ تحریک کو منظم کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ طلبہ کے مطالبات اپنی جگہ موجود ہیں۔ وزراء، پولیس اور دیگر قاتلوں کی برخاستگی اور قتل ہوئے افراد کو انصاف کی فراہمی شامل ہے۔
اس عارضی سکوت میں حکومت کی گرفتاریوں میں شدت آئی اور مختلف سیاسی راہنماؤں اور طلباء کو گرفتار کیا گیا اور خوف کی فضاء کے ذریعے امن قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انٹرینٹ،موبائل کسی حد تک بحال اور کرفیو میں کچھ گھنٹوں کی چھوٹ ملی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ٹیکسٹائل اور دیگر سیکٹرز کے سرمایہ داروں کی تشویش تھی کہ اس طرح دنیا سے ان کا رابطہ اور کاروبار منقطع ہوکررہ گیا ہے۔
اس وقفہ میں جس طرح کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر آئی ہیں انہوں نے حکومتی پراپگنڈے کی قلعی کھول دی کہ پرتشدد واقعات میں بی این پی اور جماعت اسلامی کے طلباء ونگ شامل تھے۔ان ویڈیوز میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ کسی طرح پولیس اور بنگلادیشی گارڈز پرطلباء پر تشدد اور سیدھی فائرنگ کررہے ہیں۔بہت ساری ویڈیوز میں یہ ظلم وستم واضح طور پر نظر آرہا ہے۔یہ قتل عام صرف سڑکوں پر ہی نہیں بلکہ گھروں میں گھس کربھی کیا گیا جس میں 8سے زیادہ بچے بھی قتل ہوئے۔
اس دوران ہسپتال میں زیر علاج ناہیداسلام سمیت تین طلباء کو جبری طور پر زیر حراست لے لیا گیا اس کے بعد تین مزید طلباء کوڈینٹرز کو گرفتار کیا گیا۔جنہوں نے بعدازں پولیس کے ڈیٹیکٹو بیورو کے ہیڈکواٹرز میں ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے تحریک کو ختم کرنے کا اعلان کردیا۔اس ویڈیو کے دوران ہی دیکھا جاسکتا تھا کہ کس طرح ان کو یہ پیغام گن پوائنٹ پر پڑھنے پر مجبور کیا گیا ہے۔لیکن اس کے فوری بعد ایک اور کوڈینٹر عبداللہ قیوم نے اس فیصلہ کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ ہماری تحریک کے500کوڈینٹرز ہیں۔اس تحریک کو ایسے ختم نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہ انصاف کے حصول تک جاری رہے گی۔
تمام تر جبر و تشدد کے باوجود 29جولائی کو ایک بار پھر احتجاج شروع ہوگیا ہے جس میں طلباء،ٹیچرز،وکلاء سمیت عام لوگ شریک ہیں حالانکہ ابھی بھی انٹرنیٹ کی بحالی بہت کمزور ہے اور رابطے مشکل ہیں لیکن یہ واضح طور پر لگ رہا ہے کہ جبروتشد،قتل عام،گرفتاریوں کے باوجود طلباء سمیت بنگلادیشی لوگ اب حسینہ واجد کی آمرانہ حکومت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اس تحریک کی شدت کی وجہ صرف کوٹہ سسٹم نہیں ہے بلکہ اس کی ایک اہم وجہ بے روزگاری، مہنگائی اور غربت ہے۔ یہ واضح کرتاہے کہ بنگلہ دیش کی ترقی کتنی غیر ہموار اور کھوکھلی ہے۔
یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے مطابق بنگلہ دیش میں ہر سال پانچ لاکھ سے زائد طلبہ گریجویشن کرتے ہیں جن میں سے صرف دس فیصد کو مناسب ملازمتیں مل پاتی ہیں۔ جبکہ ملک کے ادارہ برائے ڈویلپمنٹ سٹڈیز کے مطابق 66 فیصد گریجویٹس بیروزگار رہ جاتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار نشاندہی کرتے ہیں کہ ملک میں روزگار کی فراہمی کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے۔
بنگلہ دیش میں مہنگائی اب تک کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی کی شرح 10 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ حقیقت میں مہنگائی اس سے زیادہ ہے۔ حکومت نے بنگلہ دیشی عوام کے سیاسی و جمہوری حقوق پر قدغنیں لگا رکھی ہیں اور اس دفعہ کے الیکشن کااپوزیشن کی زیادہ تر پارٹیوں نے بئیکاٹ کیا تھا اور ۔حسینہ واجد کی حکومت کی مقبولیت میں بھی کافی کمی آئی ہے۔
ٹرانسپورٹ، علاج اور عوام کی بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ بنگلہ دیشی معیشت اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ سنٹرل بینک کے ریزوز میں بھی کمی ہو رہی ہے۔کرونا وائرس، یوکرائن جنگ اوردیگر وجوہات کی بنا پر عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافے کے بعد سے گزشتہ تین سے چار سال میں ان کےزرمبادلہ کے ذخائر میں بڑی کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی کے باعث کرنسی کی قدرپر بھی شدید دباؤ موجود ہے۔
بنگلہ دیشی معیشت ترقی کر رہی تھی لیکن یہ سرمایہ داروں کی ترقی تھی اس سے ان کے منافعوں میں اضافہ ہوا تھا لیکن محنت کشوں کے لیے یہ بدترین استحصال کے سوا کچھ نہیں تھا۔
۔بنگلہ دیش کے سرمایہ دار طبقے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے یہاں کے محنت کشوں کا بدترین استحصال کیا اور انتہائی کم اجرتوں پر ان سے کام لے کر ہوشربا منافع کمایا ہے۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر اس ترقی کے نتیجے میں یہاں کے عوام کے حالات پہلے سے بدتر ہو چکے ہیں اور اب یہ سرمایہ دارانہ ترقی کا دور بھی ختم ہوگیاہے یعنی مہنگائی، بیروزگاری اورغربت کا سامنا محنت کشوں کو پہلے سے زیادہ ہوگا۔سرمایہ داری نظام میں ترقی کے غیر ہموار ہونے کی ایک مثال یہ ہے کہ2022ء میں گھریلو آمدنی اور اخراجات کے متعلق بنگلہ دیش بیورو آف سٹیٹکس کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں ہونے والی آمدنی کا 30.6 فیصد اوپر کے پانچ فیصد گھرانوں کو ملتا ہے جبکہ 10 فیصد امیر ترین گھرانوں کے پاس کل آمدنی کا 40.92 فیصد ہے
ہم طلبہ کے احتجاج پر حسینہ واجد کی حکومت کے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں اور ٹریڈ یونینوں،لیفٹ کی جماعتوں اور کسان تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جمہوری حقوق کا دفاع کریں اور طلبہ تحریک کی حمایت کریں۔ریاستی اداروں اور چھترا لیگ کے غنڈوں کا حملہ بورژوا جمہوریت کے اداروں کی حقیقت واضح کرتاہے جب طلباء اور محنت کش طبقے اپنے مطالبات کے لیے لڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں ان حقوق کے لیے بھی لڑنے کی ضرورت ہوتی ہے جن کی انہیں باضابطہ ضمانت دی گئی ہے۔
وزیراعظم حسینہ واجد مستعفی ہو اور نئی آئین ساز اسمبلی کے الیکشن کروائے جائیں۔
پولیس اور فورسز کے تمام ذمہ دار فوری مستعفی ہوں اور پولیس کے جو اہلکار اموات کے ذمہ دار ہیں ان کو برطرف کرکے گرفتار کیا جائے۔
تمام گرفتار طلباء کی فوری رہائی۔
سیاسی اسیران کی فوری رہائی۔
کرفیو کا مکمل خاتمہ اور فوج بیرکوں میں واپس جائے۔
یونیورسٹیوںاور دیگر تعلیمی اداروں کو فورا کھولا جائے۔
انٹرنیٹ اور موبائل فون کو مکمل طور پر بحال کیا جائے۔
اجتماع، احتجاج اور ہڑتال کی آزادی۔
پولیس، چھترا لیگ کے غنڈوں اور دیگرشاونسٹ طاقتوں کے جبر کے خلاف تحریک اپنا دفاع منظم کرئے۔
طلباء تحریک کوشدید ریاستی کریک ڈؤان کا سامناہے لیکن 29جولائی کودوبارہ شروع ہونے والے مظاہرے واضح کررہے ہیں کہ مطالبات اب کوٹہ سسٹم تک محدود نہیں ہیں اور عوامی لیگ کی حکومت کے قتل عام کے بعدیہ تحریک اب حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف تحریک میں بدل گئی ہے اور طلباء سمیت تمام سیاسی جماعتیں اس کا مطالبہ کررہی ہیں لیکن تحریک کو کسی بورژوا پارٹی جیسے بی این پی پر بھروسے کی بجائے ایک متبادل پارٹی کی تشکیل دینی ہوگی جو روزگار،مہنگائی،غربت اور استحصال کے خاتمے کی جدوجہد کرسکے اس میں ٹیکسٹائل اور دیگر سیکٹر زکے محنت کشوں بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں۔یہ ایسی پارٹی ہو جو حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے تک نہ روکے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد منظم کرئے جس کی وجہ سے بیروزگاری،غربت اور بدترین استحصال ہو رہا ہے۔