بنگلادیش:حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ،طبقاتی جدوجہد اور سوشلزم

Posted by:

|

On:

|

,

تحریر:شہزاد ارشد
بنگلادیش میں طلباء کی احتجاجی تحریک نے وزیراعظم حسینہ واجد کو مستعفی ہونے اورہیلی کپٹر کے ذریعہ ہندوستان بھاگنے پر مجبور کردیا ہے۔یہ طلباء جدوجہد کی عظیم داستان ہے جس میں انہوں نے حکومت کے قتل عام،تشدد،گرفتاریوں کا مقابلہ کرتے ہوئے تحریک کو جاری رکھا اور بڑی عوامی حمایت حاصل کی۔حسینہ واجد کے مستعفی ہونے کے بعد آرمی چیف نے کہا کہ اب وہ سارے فیصلے کریں گئیں اورعوام پرامن رہے ان کی خواہشات پر عملدرآمد کیا جائے گا اور اس سلسلے میں وہ مختلف سیاسی پارٹیوں سے ملنے لگا۔
طلباء قیادت کے مرکزی ترجمان ناہید اسلام نے طلباء کے خیالات کو واضح کیا ”ہماری تجویز کردہ حکومت کے علاوہ کوئی بھی حکومت قبول نہیں کی جائے گی۔ ہم اپنے شہیدوں کے خون سے غداری نہیں کریں گے۔ ہم زندگی کی حفاظت، سماجی انصاف اور ایک نئے سیاسی منظر نامے کے اپنے وعدے کے ذریعے ایک نیا جمہوری بنگلہ دیش بنائیں گے۔
طلباء نے پارلیمنٹ کی تحلیل کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو وہ احتجاج شروع کردیں گے جس کی وجہ سے صدر نے پارلیمنٹ کی تحلیل کا اعلان کردیا۔اس جرات مندآنہ فیصلے نے فوج کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ طلباء اور عوام ابھی متحرک ہیں۔
عبوری حکومت
فوج نے طلباء کا مطالبہ مان لیا ہے کہ نئی حکومت کی قیادت بنگلہ دیش کے نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات محمد یونس کریں گے جو مائیکرو کریڈٹ تحریک کے بانی اور ”سماجی کاروبار” کے پروموٹر اوربنیادی طور پر نیو لبرل این جی او کا حصہ ہیں۔ تاہم حسینہ واجد حکومت کی گزشتہ دہائی کے دوران ان کے خلاف مسلسل سیاسی انتقام اور طلبہ تحریک کی حمایت کرنے کے ان کے فیصلے نے انھیں مظاہرین کے لیے ایک سرپرست شخصیت میں تبدیل کر دیا ہے۔ طلبا انہیں ایک سادہ شخصیت کے طور پر دیکھتے ہیں حالانکہ ان کی نیولبرل سیاست طلباء کے اہم مطالبہ سے متصادم ہے جو کہ روزگار کے لیے ہے۔
محمدیونس نے بنگلہ دیشی بیوروکریسی، اکیڈمی اور این جی سے تعلق رکھنے والے نیو لبرل عہدیداروں پر مشتمل ایک کابینہ تشکیل دی ہے۔ وزارت خزانہ بنگلہ دیش بینک کے سابق گورنرصالح الدین احمد کے ہاتھوں میں ہے جو نیولبرل معاشی پالیسی کا حامی ہے۔ اس قسم کی وزارت خزانہ سے کوئی سماجی بہبود ایجنڈہ نہیں آسکتا ہے۔اس کابینہ کا مقصد ٹیکسٹائل اور دیگر سرمایہ داروں کو یقین دلانا ہے کہ حسینہ واجد چلی گئی ہے لیکن نیولبرل معاشی پالیسیوں پر مبنی اس کا پروگرام جاری رہے گا۔اسی لیے عبوری حکومت کے لیے سب سے اہم مسئلہ استحکام کا ہے ڈاکٹر یونس نے قوم سے اپنے خطاب میں کہاکہ اول یہ ہے کہ ا س پرآشوب دور میں ملک کا نظم و نسق سنبھالا جائے۔
حسینہ واجد کے بعد عدم استحکام نے جنم لیا اور بدانتظامی ہر طرف تھی عام طلباء نے اس میں ٹریفک کنٹرول سے لے کر ہندووں پر حملوں کے خلاف اور دیگر ایشواز پر مسلسل انتظام سنبھالا اور مداخلت کی ہے اور سیلاب کے بعد تو واضح طور پر طلباء متحرک ہیں اور وہی بنیادی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ ملک میں کمیٹیاں اب تک موجود ہیں۔یہ صرف طلباء تک محدود نہیں ہیں اورلوگ علاقے کی سطح پر بھی لوگ منظم ہیں۔اسی وجہ سے عبوری حکومت پریشان ہے اور ایک طلباء کوڈینٹر سراج نے تو واضح طور پر کہا ہے کہ طلباء کو اب تعلیمی اداروں میں توجہ دینی چاہیے ہے۔اس وقت عبوری حکومت سے لے کر میڈیا تک سب یہی کہہ رہے ہیں تاکہ عبوری حکومت مستحکم ہوسکے۔ دوہری طاقت کی ابتدائی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں لیکن رد انقلاب کا خطرہ موجود ہے اس کا ایک اظہار انصار(پیراملٹری فورس) کے احتجاج میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔اس طرح کی صورتحال میں عوامی لیگ کی سازشوں کا خطرہ بڑسکتا ہے۔
معاشی صورتحال
معاشی صورتحال پچھلے چند سالوں میں بہت خراب ہوئی ہے جس کی وجہ سے عوام بے حد غصہ ہے اس کا ظہار حسینہ واجد کے خلاف عوامی نفرت کی صورت میں جولائی میں ہوا ہے۔ پچھلے سال قرضہ 100 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا کیونکہ معیشت سست روی کا شکار ہو گئی تھی اس لیے حکومت کو ٓئی ایم ایف کے پاس بھی جانا پڑا۔ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے سے کچھ پہلے ریاستی اثاثوں کی لوٹ مار اور سرمائے کی بیرون ملک منتقلی میں بے تحاشہ اضافہ ہوااور بہت سے سرمایہ دار جو حکومت کے قریب تھے وہ اپنے سرمایہ سمیت ملک سے فرار ہو چکے ہیں اس وجہ سے بھی بہت فیکٹریاں بند ہیں۔
اس کے ساتھ ملک میں غذائی اشیاء اور ایندھن کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے اس وقت کروڑوں افراد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور گارمنٹس سیکٹر میں جوزیادہ تر خواتین پر مشتمل ہے، اس میں اجرت محض 80 ڈالر ہے۔ یہ اجرت بھی بہت ساری فیکٹریوں میں میں ادا نہیں کی جا رہی ہے۔یہ تنخواہ اس سے کم ہے جس کے لیے پچھلے سال ورکرز احتجاج کررہے تھے۔

محنت کشوں کی جدوجہد میں ابھار
حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے سے محنت کشوں کو یہ واضح ہوگیا ہے کہ ریاست کا مقابلہ کیا بھی جاسکتاہے اور اسے شکست بھی دی جاسکتی ہے اور انہیں عبوری حکومت سے امید بھی ہے۔اس لیے ہم طبقاتی جدوجہد میں ایک بڑا ابھار دیکھ رہے ہیں۔جس میں سرکاری کالجوں کے غیر سرکاری ورکرز، ایم اے ٹی ایس کے طلباء، بعض سرکاری محکموں کے ورکرز بشمول خواتین اور بچوں کے امور کے ڈائریکٹوریٹ کے ورکرز، روزانہ کنٹریکٹ پر کام کرنے والے، ٹھیکیدار کمپنیوں کے ورکرز، کنٹریکٹ پر خدمات فراہم کرنے والی نجی کمپنیوں کے ورکرز شامل ہیں۔ وہ لوگ جن کی نوکریاں ختم ہوگئیں ہیں۔وہ مسلسل اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کررہے ہیں۔فوری اجرت کا مطالبہ کرنے والے مظاہرے سیکرٹریٹ سے لے کر پولیس بھن تک اورشاہ باغ تک ہر طرف پھیل رہے ہیں۔ سیکرٹریٹ ورکرز نے پہلے ہی دھمکی دی ہے کہ اگر ان کا نو نکاتی مطالبہ پورا نہیں ہوتا تو سیکرٹریٹ کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے گا
14اگست کو ٹونگی میں گارمنٹس کے بے روزگار مزدوروں نے سڑکوں کو بلاک کردیا اور احتجاج شروع کر دیا، اس احتجاج میں روزگار کی فراہمی اور نوکریوں کے لیے برابر مواقعوں کا مطالبہ کیا۔یراک اپیرلز لمیٹڈ کے مزدوروں کو تین ماہ سے تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں۔ جب مزدوروں نے اس کا مطالبہ کیا تو مالک نے مزدوروں کو فیکٹری سے نکال دیاجس کے ردعمل میں مزدوروں نے ڈھاکہ میمین سنگھ ہائی وے پر دھرنا دے کر قبضہ جما لیا جو کئی دنوں تک جاری رہا تھا۔
18اگست کی صبح 10:00 بجے، توتھیو آپا پروجیکٹ کے تحت کام کرنے والی خواتین نے جمنا کے سامنے دھرنا دیا۔ اس پروجیکٹ میں 2000 سے زیادہ خواتین کام کر رہی ہیں۔ یہ سب کنٹریکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ یہ منصوبہ جس میں صرف خواتین کو ملازمت دی جاتی تھی 30 جون کو ختم ہو گیاتھا۔
ایکسپورٹ پروسیسنگ زونزکے محنت کش مسلسل اپنے مطالبات کے حق اپیلیں کرررہے ہیں جس میں مالکان کولیبر قوانین میں موجودرعایتوں کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ 19 اگست کو مزدوروں نے ڈھاکہ ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کے داخلی راستے پر دھرنا دیا۔
اسی کی دہائی میں عالمی مالیاتی اداروں نے انتظامیہ پر اخراجات کم کرنے کے لیے آؤٹ سورسنگ تجویز کی تھی۔ اس آؤٹ سورسنگ تصور کی بنیاد پر بہت سی سیکیورٹی کمپنیاں دفاتر، مکانات، فلیٹ وغیرہ کو سیکیورٹی خدمات فروخت کرتی ہیں۔ تمام قسم کے خدمات فراہم کرنے والے حکومتی کاموں کو انجام دے رہے ہیں۔ میونسپل ادارے مختلف ٹھیکیدار کمپنیوں کے ذریعے اپنا کام کرتے ہیں۔ وہ جسے چاہیں نوکریاں دیتے ہیں، تنخواہ دیتے ہیں یا نہیں دیتے جیسا وہ چاہتے ہیں۔ انہوں نے ادائیگیوں میں کمی کی ہے۔ وہ چھٹی نہیں دیتے ہیں۔ ان کے پاس نوکریاں ہیں۔وہ فیصلہ کرتے ہیں اگر کام نہ ہو تو وہ تنخواہ بھی نہیں دیتے ہیں۔
ان آؤٹ سورسنگ کمپنیوں ورکرز بھی احتجاج کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے بہت سے ٹینڈر کی پیچیدگیوں کی وجہ سے اپنی ملازم سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پھر سال کے آخر میں جون میں کمپنیاں نوکریوں کی تجدید کے لیے بھاری رشوت طلب کرتی ہیں۔ اگر وہ ادائیگی نہیں کرتے ہیں، تو وہ اپنی نوکریوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اس کے باوجود انہیں ہر ماہ باقاعدگی سے تنخواہ نہیں دی جاتی ہے۔ کبھی ان کی اجرت پانچ چھ ماہ تک باقی رہتی ہے کبھی ایک سے دو سال تک ایسا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام لوگ جن کی نوکریاں ختم کی گئی ہیں ان کو بحال کیا جائے۔ وہ رسک الاؤنس، مراعات، عید بونس اور دیگر بونس سے محروم ہیں۔ حکومت بینک کھاتوں کے ذریعے ادائیگی کی بات کرتی ہے لیکن ٹھیکیدار نقد ادائیگی کرتے ہیں۔ اضلاع میں ٹھیکیداروں کے ہاتھ سے اجرت لی جاتی ہے۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق ادائیگی کرتے ہیں یہ حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ریٹ کے مطابق نہیں ہوتیں اور وہ وقت پر ادائیگی بھی نہیں کرتے ہیں۔
یہ چند ایک مثالیں ہیں۔اس طرح کے بے شمار احتجاج ہورہے ہیں۔محنت کشوں نے جولائی کے مہنے کی شاندار جدوجہد سے سیکھا ہے کہ اگر انہوں نے اپنی زندگی بہتر کرنی ہے تو ان کو بھی احتجاج کرنا ہوگا یہ لڑ کر ہی جیت سکتے ہیں جس طرح سے طبقاتی جدوجہد میں اضافہ ہوا۔اس سے سرمایہ داروں کو نظر آرہا ہے کہ استحکام مشکل ہے ا۔طلبہ کے خلاف امتیازی سلوک کے کوآرڈینیٹر سراج عالم نے کہاہے ”جن میں گزشتہ 16 سالوں میں بولنے کی ہمت نہیں تھی وہ لوگ جنہوں نے 53 سالوں میں سڑکوں پر آنے کی ہمت نہیں کی وہ چاہتے ہیں کہ تمام معاملات فوری طور پر حل ہوجائیں۔ 16 دن سے یہ لوگ اپنے معمولی ذاتی یا گروہی مفادات کو لے کر سیکرٹریٹ اور دیگر اداروں کا محاصرہ کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ عوام عوامی لیگ سے وابستہ سرمایہ داروں سے بھی اپنی نفرت کا اظہار کررہے ہیں اور ان کی فیکٹریوں اور املاک پر حملے ہورے ہیں۔اس لیے سرمایہ دار اب یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ قرضوں کی ادائیگی اور یوٹیلیٹی بلز میں کمی جائے تاکہ وہ عالمی سطح پر آڈرز حاصل کرسکیں۔ڈاکٹر یونس اور اس کی حکومت ایک طرف تو سرمایہ داروں کو ہر طرح کی یقین دہانی اور کی حفاظت کی بات کررہی ہے اور دوسری طرف یہ کہہ رہی ہے کہ معیشت اور سیاست الگ الگ ہیں تاکہ سرمایہ دار طبقہ کا منافع برقرار رہے اور اسے کوئی نقصان نہ پہنچے۔
کیا کیا جائے؟
طلباء بنگلہ دیش میں جمہوریت کی جدوجہد میں پیش پیش رہے ہیں۔ اس سے عوامی جدوجہد کا ایک نیا دور شروع ہواجس میں بہت زیادہ انقلابی صلاحیت کے ساتھ ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی الگ الگ طبقاتی مفادات ابھرے ہیں۔ ایک طرف وہ قوتیں ہیں جو پرانے نظام کو کوئی بنیادی نقصان نہیں پہنچانا چاہتیں اور دوسری طرف مزدور اور عام لوگ ہیں جو ملازمتوں کا تحفظ، اجرتوں میں اضافہ اور غربت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
ابھی تک محنت کش طبقے کی اس بیداری نے بدحالی اور غربت، بے روزگاری کے بوجھ، کم اجرتوں اور بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کی جدوجہد پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ لیکن بنگلہ دیشی سرمایہ داری کی طرف سے مسلط کردہ حد سے زیادہ استحصال کی جڑوں سے نمٹنے کے لیے اس جدوجہد کو مزید آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
جمہوری تقاضوں، کرپٹ حکومت کے خاتمے کے لیے جدوجہد کو مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہو گا جب جمہوری انقلاب کو مستقل کیا جائے اسے بنگلا دیش میں سرمایہ داری کا تختہ الٹنے کی جدوجہد اور محنت کشوں کی حکومت کے لیے جدوجہد سے جوڑ دیا جائے۔جس کی بنیاد مزدوروں کی کونسلوں پر ہواورکرپٹ ریاستی نظام کو توڑا جائے اور سرمایہ دار طبقے کوبیدخل کیا جائے۔ قرض کو منسوخ کیا جائے اور عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہنگامی منصوبہ بند پروگرام متعارف کریا جائے۔
یہ سوچنا یوٹوپیائی ہو گا کہ طلباء جو بنیادی طور پر پیٹی بورژوا اور متوسط طبقے کے پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں انقلاب کو انجام تک پہنچا سکتے ہیں۔ یہ کام ملک کے محنت کش ہی کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے وہ ایک انقلابی محنت کش طبقے کی پارٹی بنانی ہوگی اور ایسی پارٹی کی جدوجہد کو صرف بنگلہ دیش تک محدودنہیں ہوگی اوریہ صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے جب انقلاب برصغیر میں پھیلے اور یہ جنوبی ایشیا کی سوشلسٹ فیڈریشن تشکیل دئے۔