تحریر۔شہزاد ارشد
فیس بک پراس ایک پوسٹ”بلوچ طلباء نے دیکھا دیا کہ جدوجہد سے ریاست کو جھکنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے، یہ بلوچ طلباء تحریک کی اہم کامیابی ہے“کوبنیاد بنا کرریڈ ورکرز فرنٹ کے کامریڈزاسے طلباء تحریک کو قومی بنیاد پر تقسیم کرنا اور قوم پرستی قرار دئے رہے ہیں۔ایک اور لیفٹ گروپ کے ساتھیوں نے ریڈ ورکرز فرنٹ کی حمایت کی ہے البتہ انہیں تحریک اور کامیابی بھی نظر نہیں آرہی اور ان کے مطابق کچھ بھی نہیں بدل رہاہے اور سرمایہ داری مستحکم ہے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ پاکستان کی عالمی سرمایہ داری میں پوزیشن اور اس کے زیر اثر پاکستان کے حکمران طبقہ اور ریاست کی بنت کو نہیں سمجھتے جس میں بنیادی طور پر پنجابی حکمران طبقہ بالادست ہے جبکہ مہاجر،پشتون اور سندھی اشرافیہ بھی اس کا حصہ ہیں لیکن تینوں صوبوں اور دیگر خطوں میں اندرونی نوآبادیاتی نظام مسلط ہے اس لیے ریاست کی تشکیل اس کو مدنظر رکھ کر کی گئی ہے اور اب جب یہ نظام شدید بحران کا شکار ہے اور حکمران طبقہ پرانے طریقہ سے حکمرانی نہیں کرپارہا تو ہر جگہ ہلچل اور تضادات ابھر رہے ہیں بلکہ ہر حل طلب سوال ابھر کرسامنے آرہا ہےلیکن ان کی شدت ان علاقوں میں زیادہ ہے جہاں اندرونی نوآبادیاتی ٖضرورتوں کے تحت بہت زیادہ جبر مسلط کیا گیا یہ تو واضح ہے کہ پاکستا ن میں ایک وبال جنم لے رہاہے۔ برمش بلوچ کے بعد اب پشتون علاقوں میں ایک نوجوان پر پولیس تشدد کے خلاف احتجاج اور بلوچ طلباء تحریک اسی کا اظہار ہیں۔
اس وقت بلوچ سماج میں ایک تحرک ہے جس کا آغاز بلوچستان یونیورسٹی میں طالبات کو ہراساں کیے جانے والے واقعات سے شروع ہواپھر بی ایم سی کا مسئلہ سامنے آیا تب بھی ان ہی طلبا ء و طالبات کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ اس کے بعد برمش بلوچ اور دیگر واقعات کے خلاف بھی یہی طلبا ء متحرک ہوئے۔ بلوچستان میں حالیہ احتجاجی لہر میں بھی بلوچ طلبا ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ آن لائن کلاسز کے خلاف ملک بھر میں جاری احتجاجات کا ایک سلسلہ جاری ہے مگر اس کی سب سے زیادہ شدت بلوچستان میں ہے اور بلوچ طلباء زیادہ متحرک ہیں۔ ایچ ای سی کے دفتر کے سامنے اسلام آباد میں بھوک ہڑتالی کیمپ بلوچ طلبا نے لگا رکھا ہے۔ کراچی میں بھی اس کا اہتمام بلوچ طلبا نے کیا اور کوئٹہ میں بھی بنیادی طور پر بلوچ سٹوڈنٹس الائنس نے ہی یہ کیمپ لگا رکھا تھا۔یہ سب سرمایہ داری کی غیر ہموار اور مشترکہ ترقی کا نتیجہ ہے اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام آباد،پنجاب کے شہروں اور کسی حد تک سندھ اور پختونخواہ کے شہروں کے طلباء کے مسائل اور شدت مختلف ہے لیکن یہ جڑے ہوے بھی ہیں اس لیے ان علاقوں میں طلباء تحریک کی شکل ابھی تک اس طرح نہیں بن پائی۔
سوشل میڈیا پرجو ویڈیوز پوسٹ ہوئیں ان میں دیکھا جا سکتا تھا کہ کیسے بلوچ طلباء کو گرفتار کیا گیا جن میں بلوچ خواتین بھی شامل تھیں اور انہوں نے جس بہادری کا مظاہرہ کیا اس نے سب کو ہی متاثر کیا اور گرفتاری کی حالت میں ماہ رنگ بلوچ اور دیگر کی گفتگو میں جو جذبہ اور عزم تھا وہ قابل ستائش تھا۔جس نے بھی یہ ویڈیوز دیکھیں ان پر حکمران طبقہ کے جبر کی حقیقت واضح ہوگی اوراس نے بہت ساروں کو ہمت دی اور ان کے حق میں مختلف شہروں میں احتجاجات ہوئے۔یہ احتجاج بلوچستان کے دیگر شہروں کی طرح لاہور،کراچی اور اسلام آباد میں بھی ہوئے اور یوں طلباء میں یکجہتی میں اضافہ ہوا اور حکمران مذاکرت پر بھی آئے اور فی الوقت انہوں نے ان کے مطالبات کو تسلیم اور اس کے لیے ایچ ای سی سے بات کرنے کا کہاہے یہ بلوچ طلباء تحریک کی اہم کامیابی ہے اور اسی نے ان کے لیے یکجہتی کو جنم دیا اس ساری جدوجہد میں بلوچ طلباء نے ہراول کا کردار ادا کیا ہے لیکن ملک گیر سطح پر طلباء تحریک کو بلوچ طلباء کے مسائل کو اہمیت دینی چاہیے اور یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بلوچ طلباء بلوچ قوم سے علیحدہ نہیں ہیں جن کو شدید ریاستی جبر کا سامنا ہے تو بلوچ طلباء کے ساتھ یکجہتی نامکمل اور ادھوری ہے جب تک یہ ان پر قومی جبر کی مخالفت کے بغیر ہو۔
پاکستان جو پہلے ہی ایک بحران زدہ ریاست ہے اس کے بحران کوکورونا وائرس اورعالمی سرمایہ داری میں گراوٹ نے شدید تر کردیا اور اس وقت دنیا کے تمام ممالک کے جی ڈی پی اور صنعتی پیداوار میں بڑے پیمانے پر سکڑاؤ پیدا ہواہے۔ آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ عالمی جی ڈی پی میں سال کے دوران 3 فیصد کمی واقع ہوگی اورعالمی معیشت کو کورنا وائرس کی وجہ سے 12ٹریلین ڈالرکا نقصان ہوگا۔ اسی طرح امریکہ کے جی ڈی پی میں 6فیصد اور یورپین یونین کے جی ڈی پی میں 7.5فیصد کمی متوقع ہے2020 کے لئے چینی شرح نمو کا تخمینہ2.1فیصد ہے ان حالات میں پاکستان کی معیشت جو پہلے ہی زوال پذیر ہےپچھلے مالی سال معیشت منفی0.38فیصد رہی ہے اور اس سال یہ منفی2.5فیصد یا اس سے بھی نیچے جاسکتی ہے اور جبکہ ابھی ایک کڑور بیس لاکھ سے زائد لوگ بے روزگار ہوئے ہیں اور اس میں مزید اضافہ ممکن ہے کیونکہ برآمدات میں اضافہ کی کوئی امید نہیں ہے اور ترسیلات زر میں کمی آئی جس میں مزید کمی متوقع ہے اور کسی طور بھی پاکستانی معیشت میں ایک طویل عرصہ تک کوئی بہتری نظر نہیں آرہی جس کی وجہ سے ایک طرف فیکٹری مزدورں کی نوکریوں میں خاتمے اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور ان میں کٹوتیوں کے خلاف جدوجہد کررہے تودوسری طرف محنت کشوں کی ایک اور پرت سرکاری اداروں کی نجکاری اور ان میں نوکریوں میں کمی کے خلاف جدوجہد میں آرہی ہے۔ اس ریاست کا سماجی ڈھانچہ ٹوٹ رہا ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے واضح کیا ہے کہ سرمایہ داری کا ہر تضادپھوٹ رہا ہےیہ لیکن یہ جدوجہدصرف معیشت پسند انہ انداز میں طبقاتی سوال تک ہی محدود نہیں ہے۔
یہ صورتحال کامریڈز کو سمجھ میں نہیں آتی کیونکہ ان کے مطابق ایک طرف طبقاتی جدوجہد(معیشت پسندی) اورسوشلسٹ انقلابی ہوتے ہیں اور دوسری طرف حکمران طبقہ اورردِانقلابی ہوتے ہیں یہ پاکستان جیسے ملک کے لیے ایک انتہائی مضحکہ خیز تناظر ہے جس کا حقیقی زندگی اور معروض سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ حقیقی زندگی ان کے تخلیق کردہ نظریہ سے مطابقت نہیں رکھتی ہے۔اس لیے انہیں ہر طرف طبقاتی جدوجہد معیشت پسندانہ انداز میں نظر آتی ہے اور اس سے باہر یہ ہر جدوجہد کو ردکردیتے ہیں یا اسے فریم ورک میں لانے کی کوشش کرتے ہیں اور چاہتے کہ معروض ان کی مرضی سے مطابقت پیدا کرئے جو نہیں ہوتا تو یہ تلملا اٹھتے ہیں اور فتوی ٰصادر کرنا شروع کردیتے ہیں لیکن ان کا مارکس ازم معیشت پسندی سے زیادہ کچھ بھی ہے اس لیے یہ بلوچ طلباء تحریک کے ساتھ جڑنے کی بجائے قومی محدودیت کو فروغ دئے رہے ہیں اور انہیں سمجھ نہیں آرہا کہ کیسے بلوچ طلباء کی جدوجہد نے طلباء تحریک کو حوصلہ بخشا ہے اور اب فاٹا کے پشتون طلباء اس تحریک کو مزید آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں جب ہم بلوچ طلباء کی تحریک کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ان کو تقسیم کرنا نہیں ہوتا بلکہ یہ کُل کا حصہ ہیں لیکن اس کو جدلیاتی طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ویسے بھی ان کا موقف سرمایہ داری میں ناہموار اور مشترکہ ترقی کی منطق کو سمجھنے سے قاصر ہے اس لیے یہ نظریہ مسلسل انقلاب کی بھونڈی تشریح کرتے ہیں اور سمجھ نہیں پاتے کہ ایک نیم نوآبادی میں انقلاب کا عمل کتنا پیچیدہ ہوتاہے۔
قومی سوال بھی طبقاتی سوال کا ایک اظہار ہے اور قومی سوال کو ملک گیریت کے نام پر دبانا معیشت پسندی تو ہو سکتا ہے مگر اس کا مارکسزم سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے علاوہ مخصوص معروض کا ادراک کرنا پریسیشن کہلاتا ہے جو انقلابی جدوجہد کا بنیادی جز ہے اور اگر نہ ہوتا تو ہمارے لئے 1938 کا عبوری پروگرام کافی تھاہر نئے عہد کے لئے نیا پروگرام لکھنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی اور مارکسزم کو ایک جامد عقیدے کی طرح پیش کرنامارکسزم کی موت ہے۔
ان حالات میں انقلابی سوشلسٹوں کے لیے بہت اہم ہے کہ وہ تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال سے مطابقت میں آئیں اور بحران اور جدوجہد میں انقلابی سوشلزم کی طرف آتے ہوئے رجحانوں کی حوصلہ افزائی کرئیں اورتحریکوں کو پھیلائیں اور ان کو گہرا کرنے میں اپنا کردار ادا کرئیں لیکن انتہاء پسندی کی بنیاد پر تحریکوں کو رد نہ کرئیں کہ یہ ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں یا اس کی قیادت ہماری مرضی کی نہیں ہے اور نہ ہی ان تحریکوں کی قیادت کا دم چھل بنیں بلکہ ایک انقلابی سوشلسٹ پروگرام کے ساتھ سامنے آئیں اور جدوجہد کی اگلی صفوں میں موجود ہوتے ہوئے تحریک کو انقلابی پروگرام پر جیتنے کی کوشش کرئیں۔
One response to “بلوچ طلباء تحریک،ریاست اور قومی سوال”
اچھی تحریر ہے۔ ساتھی سے گزارش ہے کہ پاکستان کے مخصوص حالات میں طبقاتی تضاد کا طرح قومی تضاد کو جنم دیتا ہے اور کیسے ان دونوں تضادات کو تحریک میں جوڑا جا سکتا ہے اس پر بھی وضاحت کریں۔