بلوچ قومی سوال:فوجی آپریشن،دہشت گردی،سیاسی جدوجہد اور انقلابی سوشلزم

Posted by:

|

On:

|

,

تحریر:شہزاد ارشد

موسیٰ خیل میں سرائیکی مزدوروں اورپشتون تاجروں کے قتل اور مختلف علاقوں میں سیکورٹی فورسز پر حملوں کے بعدپنجاب میں بلوچستان کے خلاف ایک نفرت انگیز مہم شروع ہوگی ہے ۔ اخبارات اور الیکٹرنک میڈیا پر بلوچستان میں آئی ڈی کارڈ چیک کرکے سرائیکی اور پنجابی مزدوروں کے قتل اور دہشت گردی کے واقعات پر تبصرے اور تجزیے ہورہے ہیں اور اسے ہندوستان اور امریکہ کی سازش قرار دیا جارہا ہے جو پاکستان بحران کی وجہ اوراس کی ترقی میں حائل ہیں ۔ ان حملوں کے فوری بعد صدر سے لے وزیراعظم اور دیگر وفاقی وزراء کی طرف سے اس کی مذمت کے بیانات آئے جس میں ان حملہ آوروں کو ملک کی تعمیر اور ترقی کا دشمن قرار دیا گیا ۔

نسل پرستی

سوشل میڈیا میں کمپین شروع ہوگی کہ کوئٹہ ہوٹل کا بیکاٹ کیا جائے اوربلوچ واپس بلوچستان جائیں ۔ یہ کمپین شروع کرنے والے یا تو مکمل طور پر جاہل ہیں یا انہوں نے جان بوجھ کربلوچوں کے ساتھ پشتونوں کی طرف بھی نسل پرستی کا اظہار کیاہے ۔ دہشت مخالف جنگ میں پشتونوں کوجس نسل پرستی کا سامنا تھا اسے ریاست نے باقاعدہ پروان چڑھایاتھا اور اب بلوچ قوم کے حوالے سے نسل پرستی کو گہرا کیا جارہا ہے حالانکہ پنجاب میں پڑھنے والے بلوچوں کو یونیورسٹیز،کالجوں میں پہلے ہی نسل پرستی کا سامنا رہتا ہے ۔

پنجاب کی مڈل کلاس جس میں لبرل اور لیفٹ میں سے بھی کچھ ریاستی پراپگنڈے کی حمایت کررہے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ریاست کے بلوچ قوم پر آپریشن اور جبر و تشدد کی کبھی مخالفت نہیں کی ہے ۔ البتہ یہ سرائیکی مزدوروں کے قاتل کے خلاف ایک کمپین کررہے ہیں۔انہوں نےلاہور،ملتان اور دیگر جگہوں پر احتجاجات بھی کیئے ہیں اور ان میں واضح طور پر نسل پرستانہ بیانیہ اختیار کیا گیا ہے ۔

ترقی مخالف اور دشمن

سرائیکی مزدوروں کے قتل اور سیکورٹی فورسز پر حملوں کو ہندوستان اور امریکہ کی سازش قرار دیا جارہا ہے کہ وہ سی پیک کے مخالف ہیں اور نہیں چاہتے کہ بلوچستان اور پاکستان ترقی کرئے اس لیے بی ایل اے جیسی مسلح تنظیموں کو بیرونی امداد حاصل ہوتی ہے ۔ اسی طرح کے الزامات بلوچ راجی مجی پر بھی وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے لگائے انہوں نے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اس موضوع پر کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی گوادر میں ہی یہ اجتماع کیوں منعقد کرنا چاہتی ہے کوئٹہ یا بلوچستان کے کسی اور مقام کا انتخاب کیوں نہیں کیا جا رہا ہے۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ گوادر ایک بین الاقوامی شہر ہے اور اس میں سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے والا ہے ۔ اس کا کہنا تھا کہ داسو میں پیش آنے والے واقعے کے بعد حکومت نے چین سے بات کر کے سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع کروانے کے لیے ایک ماحول بنایالیکن آج جب سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے لگا تو ان کو گوادر کی یاد ستانے لگی ۔ اب وزیر داخلہ محسن نقوی نے اسمبلی میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ بنیادی طور پر شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن کی اکتوبر میں ہونے والی میٹنگ کے خلاف تھا ۔

اس لیے اس واقعہ کے فوراُُ بعد بلوچ سیاسی کارکنان کے گرد گھیرا تنگ کیا جانے لگا اور 4ہزار سے زائد کو فورتھ شیڈیول میں ڈالا دیا گیا ہے ،بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ایکٹوسٹوں کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنان کو جبری طور پر گمشدہ کیا جارہا ہے ۔ حکمران طبقہ کے مطابق جمہوری حقوق کی جدوجہد ترقی مخالف ہے اور ترقی کے لیے ضروری ہے کہ تمام جمہوری حقوق کی پامالی کو قبول کیا جائے ۔ اسی لیے وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ یہ دہشت گردایک ایس ایچ او کی مار ہے یعنی ریاست جبروخوف پھیلا کر بلوچ قومی جدوجہد کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے جو اس وقت بلوچ یکجہتی کمیٹیوں کے تحت جاری ہے ۔

ریاست اور مظلوم اقوام

عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں پاکستان ایک نیم نوآبادی ہے اور پاکستانی ریاست کا ڈھانچہ سامراجی سرمایہ اور قومی سرمایہ کے مفادات کے مطابق تشکیل پایا ہے ۔ پاکستان کے حکمران طبقہ میں پنجابی سرمایہ دار طبقہ بالادست ہے جبکہ مہاجر،پشتون اور سندھی اشرافیہ بھی اس کا حصہ ہیں لیکن پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں اور کشمیر و گلگت بلتستان میں اندرونی نوآبادیاتی تسلط ہے البتہ بلوچستان میں ریاستی جبربہت شدید ہے ۔

ریاست نے بلوچستان میں ترقی کے نام پر پوری پوری آبادیوں کو بےدخل کیا ہے اس کی ایک واضح مثال گودار جہاں ’’ ترقی‘‘نے بلوچ قوم کی محرومیوں میں اضافہ کیا ہے ۔

اس وقت ہزاروں بلوچ گمشدہ ہیں اور اکثر ان کی مسخ شدہ لاشیں اور اجتماعی قبریں ملتی ہیں ۔ اس کامطلب یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ سماج میں طبقاتی استحصال کے علاوہ دیگر کئی طرح کے جبر ہوتے ہیں جس سے مزدور طبقہ تقسیم ہوتاہے ۔ اس وجہ سے مظلوم اقوام یا دیگرپرتیں یہ سمجھتی ہیں کہ ان پر جبر اس لیے ہے کیونکہ وہ بالادست قوم سے مختلف ہیں جس کی وجہ سے ان کی جدوجہد قومی شکل اختیار کرجاتی ہے اس سے مزدور تحریک میں تقسیم آتی ہے اور سرمایہ داری نظام کے خلاف جدوجہد متاثر ہوتی ہے اس لیے انقلابی سوشلسٹوں کے مطابق قومی جبر بھی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے مفادات کو برقرار رکھنے کے لیے کیا جاتاہے ۔ اس لیے سرمایہ داری کے خلاف لڑائی کے لیے ضروری ہے کہ انقلابی سوشلسٹ ہر طرح کے جبر کی مخالفت میں سب سے آگے نظر آئیں تاکہ طبقاتی بنیادوں پر محنت کشوں کو جوڑا جاسکے ۔ سرمایہ داری ایک عالمی نظام ہے اور اس کے بحران،وبائیں اور جنگیں بھی عالمی ہیں اور یہ پوری دنیا کو متاثر کرتی ہیں اس لیے اس کے خلاف جدوجہد بھی ایک عالمی جدوجہد اور یکجہتی سے ہی ممکن ہے ۔

مذاکرات

حکومت اور اپوزیشن یعنی سارا حکمران طبقہ اس وقت مذاکرات کی بات کررہا ہے اورسردار اختر مینگل کے استعفیٰ نے صورتحال کو مزید سنگین کردیا ہے ۔ وہ ایک اصلاح پسند سیاست دان ہیں جن کو عوام میں ابھی تک کچھ قبولیت حاصل ہے انہیں سمجھ آگئی ہے کہ سیاسی جدوجہد کا محور اس وقت بلوچ یکجہتی کمیٹیاں ہیں اور وہ اسمبلی کا حصہ رہ کرمحض بیکار عضو بن جائیں گے ۔ اس لیے انہوں نے استعفیٰ دیا اور مذاکرات سے بھی انکار کیا اور کہا کہ مذاکرات اب پہاڑ والوں سے کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب کہ سیاسی حقیقت یہ ہے کہ مذاکرات اس وقت بلوچ قوم کی سیاسی قیادت سے کرنے چاہیے ہیں لیکن ریاست ان کو دشمن اور سرمچاروں کے ساتھی کے طور پر پیش کررہی ہے ۔

حکومت یہ مذاکرات ایک دفعہ پھر سرداروں اور سیاسی مداریوں سے کرنا چاہتی ہے جن کو ریاست نے بلوچ قوم اور بلوچستان پر مسلط کررکھا ہے یعنی حقیقت میں ریاست اس ڈرامہ کی آڑ میں سیاسی جدوجہد پر حملہ آورور ہوکر اسے ختم یا محدود کرنا چاہتی ہے کیونکہ وہ اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے بلوچ سیاسی جدوجہد کے مطالبات تسلیم کرلیے تو ان کا وسائل کی لوٹ مار میں بڑا محدود حصہ ہوگا اور یہ انہیں منظور نہیں ہے اور اسی لیے وہ مذاکرات کرنے کی بجائے اس کا ڈھونگ رچانا چاہتے ہیں ۔

انقلابی سوشلسٹ اور انفرادی دہشت گردی

انقلابی سوشلسٹ انفرادی دہشت گردی پر تنقید کرتے ہیں لیکن یہ حکمران طبقہ اور اس میڈیا کی جانب سے دہشت گردی پر کی جانی والی تنقید سے بہت مختلف ہوتی ہے جب دہشت گردی کی بات آتی ہے تو سامراج اور ریاست سے بڑے دہشت گرد کوئی نہیں اور ان کے آپریشنوں کے نتیجے میں ہزاروں بلوچ مسنگ ہیں اور ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی اور اجتماعی قبریں بنائی گئیں ہیں ۔ یہ بلوچستان اور پاکستان بھر جاری استحصال و جبر اور تشددکے ذمہ دار ہیں ۔

دہشت گردی اور قتل عام نظام کی محرومیوں اور بربادیوں کی پیداوار ہے ۔ اس لئے ہماری جدوجہد سامراج اور ریاست کے خلاف ہونی چاہئے اور یوں ہی ہم انفرادی دہشت گردی کے مقابلے میں محنت کش عوام کی سیاسی جدوجہد تعمیر کر کے دہشت گرد گروپوں کا متبادل پیش کر سکتے ہیں اور ریاستی آپریشنوں ،دہشت گردی اور قومی جبر سے چھٹکارا پاسکتے ہیں لیکن یہ سب ریاست کو منظور نہیں ہے اور انہیں یہ واضح ہے کہ اگر سیاسی جدوجہد مزید منظم ہوتی ہے تو ریاست کے لیے پیچھے ہٹنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے اس لیے انہوں نے بلوچ راجی مجی پر وار کرکے سیاسی جدوجہد کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جس میں انہیں ناکامی ہوئی اور لاکھوں بلوچ متحرک ہوئے لیکن ریاست کے اس جبروتشدد میں بلوچ سرمچاروں کو سپیس ملی اور انہوں نے ان حملوں کے ذریعے اپنی سیاسی اتھاڑٹی قائم کرنے کی کوشش کی اور اب ریاست آپریشن میں تیزی لا کر سیاسی جدوجہد کو کچلانا چاہتی ہے ۔

طبقہ نہیں قوم

قومی جبر کے خلاف مظلوم اقوام میں جدوجہد کرنے والے میں سے بہت سارے سوشلزم سے متاثر بھی ہیں اس لیے وہ سوشلسٹ نظام کے مخالف تو نہیں ہوتے مگر ان کی اکثر دلیل یہ ہوتی ہے کہ ہمیں پنجابی یا دیگر محنت کشوں کی طرف سے کوئی حمایت نہیں ملتی اس لیے قومی جدوجہد میں اس وقت طبقاتی تقسیم پر بات نہ کی جائے بلکہ ہمیں اس وقت قومی جدوجہد کی ضرورت ہے اور جب ہم ایک دفعہ آزاد ہوگے تو پھر سوشلزم کے لیے جدوجہد کی جاسکتی ہے اور ویسے بھی پاکستان جیسی رجعتی ریاست کے مقابلے میں ہماری تحریکیں زیادہ سیکولر ہیں اور قومی آزادی کے بعدسوشلزم کے لیے زیادہ بہتر طریقہ سے جدوجہد ہوسکتی ہے ۔ اسی طرح پنجاب میں لبرل اور لیفٹ میں سے کچھ سردار اور تحریک کی قوم پرست قیادت کی وجہ سے انہیں طبقاتی بنیادوں پر رد کرتے ہوئے حکمران طبقہ کے ساتھ کھڑئے ہوجاتے ہیں اوریوں حقیقت میں پنجابی قوم پرست پوزیشن لیتے ہیں ۔

طبقاتی یکجہتی مفقود

کارکس مارکس کہتا ہے کہ عام حالات میں حکمران طبقہ کے نظریات بالادست ہوتے ہیں اور محنت کش طبقہ بھی ان نظریات کو قبول کرتا ہے ۔ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہے بلوچستان میں جاری جبر اور بربریت کے خلاف بلوچستان سے باہر کم ہی آواز اُٹھتی ہے اور پنجابی محنت کش طبقہ بھی اپنے حکمران طبقہ کے خیالات اور پرپگنڈے کو قبول کرتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ اس کا مفاد پاکستان کے مفاد اور ترقی سے وابستہ ہے اور اس کی ترقی اور بہتر زندگی کے راستہ میں بلوچ یادیگر مظلوم اقوام کی قیادت ایک رکاوٹ ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ لوگ انڈیا کے ساتھ بھی ملے ہوئے ہیں جو ہمیشہ سے پاکستان مخالف ہے یعنی نظام کی مخالفت اور اس میں اپنے مسائل دیکھنے کی بجائے وہ بلوچ اور دیگر مظلوم اقوام کواپنی محرمیوں اور پسماندگی کا موردالزام ٹھراتے ہیں ۔

قومی جبر کے خلاف یکجہتی کیسے کی جائے

اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس وقت بلوچ قوم پر جاری جبر پنجاب اور دیگر صوبوں کے محنت کشوں کے سامنے لایا جائے ۔ اس میں انقلابی تنظیم کی شعوری مداخلت کا کردار اہم ہوگا جو محنت کش طبقہ کی روزمرہ زندگی اور جدوجہد میں اس کے تعصبات پر تنقید کرئے اور اسے جبر کے خلاف جدوجہد کی حمایت پر جیتے اور یہ واضح کرئے کہ حکمران قوم کے محنت کشوں کی اپنی آزادی کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ مظلوم قوم کی حمایت کرئے اور اس طرح وہ اپنے اوپر سے حکمران طبقہ کی زنجیریں توڑسکتا ہے اور ان کے نظریات اور سیاست کو بھی رد کرسکتا ہے اور جب بالادست قوم کا مزدور طبقہ اپنے سرمایہ داروں کا ساتھ دیتاہے تو وہ اپنے اوپر مسلط غلامی کی زنجیروں کو بھی مضبوط کرتا ہے ۔ یہ ایک صبرآزما جدوجہد ہے جسے شعوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ جدوجہد حقیقت میں محنت کشوں کی ٹریڈ یونین کی جدوجہد سے انہیں متبادل سیاسی جدوجہد پر بھی لائے گی ۔

مظلوم قوم کا حکمران طبقہ اور اس کے مفادات

یہ ایک پیچیدہ صورتحال ہے جس کی وجہ کوئی قوم نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے مفادات ہیں اس لیے قومی آزادی سرمایہ داری سے لڑائی اور سوشلزم کے بغیر ادھوری اور نامکمل ہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مظلوم قوم کا حکمران طبقہ ریاست اور سامراج سے جڑہوتاہے اوریہ واضح ہے سندھی وڈیروں ،پشتون خان اور بلوچ سرداروں کے بغیر ریاست کی حکمرانی ممکن نہیں ہے اس لیے ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ سردار ریاست اور سامراج سے تضاد اور مفاہمت میں آتے رہتے ہیں ایسا اس لیے بھی ہے کہ ان کا تناظر بھی سرمایہ کی حدود کے اندار ہے ۔

ان حالات میں مظلوم اقوام میں مزدور ہی واحد طبقہ ہے جس کا مفاد سرمایہ اور ریاست کے ساتھ ٹکراو میں آتا ہے اوریہ مزدور طبقہ کے ساتھ شہری ودیہی غریب ہی ہیں جو سرمایہ اور ریاست کے ساتھ مستقل مزاجی سے لڑنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور یہ دیگر اقوام کے مزدور طبقہ سے ملکر یہ اس نظام سے آزادی کی جدوجہد کرسکتے ہیں ۔

کیا کیا جائے

حکمران طبقہ کا مفاد اسی نظام سے وابستہ ہے اس لیے وہ آزادی کی جدوجہد میں کامیابی کے بعد بھی پرانے نظام کو جاری رکھتا ہے اور سامراجی تسلط کو مضبوط اور محنت کشوں کے استحصال کے حالات کو برقرار رکھتا ہے،اس لیے انقلابی سوشلسٹ سمجھتے ہیں کہ ایسی آزادی ادھوری ہے لیکن وہ مظلوم قوم کے حق خواردیت اورحق علیحدگی کو تسلیم کرتے ہیں ۔

انقلابی سوشلسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ مظلوم اقوام کو اپنی آزادی کے لیے اس نظام کے خلاف لڑائی لڑنی ہوگی اور یہ لڑائی کوئی بھی ایک قوم کامیابی سے اکیلے نہیں لڑ سکتی ہے ۔ اس فتح کے لئے دیگر مظلوم اقوام اور محنت کش طبقہ کو سرمایہ داری مخالف تناظر میں جڑنا ہوگا ۔ اس نظام کو چلانے والے ہی اس نظام کو بدل سکتے ہیں ۔ اس نظام کو بدلنے کے لئے ہمیں انقلابی نظریات اور قیادت درکار ہیں اور اپنے طبقہ کی آزادانہ سیاست جس میں نہ بالادست قوم کا حکمران طبقہ نہ محکوم اقوام کا حکمران طبقہ مداخلت کر سکے یہی ہماری حقیقی فتح کی ضمانت ہے ۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچ قوم کی سیاسی جدوجہد جمہوری حقوق کی جیت میں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہیں یہ تحریک بلوچستان بھر میں پھیل گئی ۔ اس سیاسی اظہار سے ریاست پریشان ہے ۔ بلوچستان کا مقامی حکمران طبقہ شش و پنج کا شکار ہیں مسلح تنظیمیں بھی سیاسی قیادت کے لیےکوشاں ہیں ۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تحریک اپنی بنیاد میں سیاسی ہے، اسے نہ ریاست سے امیدیں ہیں اور نہ بلوچ حکمران طبقہ سے ہیں ۔ ان کی امیدیں ان کی اپنی جدوجہد میں ہیں ۔ اس تحریک میں محنت کش طبقہ کے نوجوان اور خواتین کی اکثریت ہے جنہوں نے بلوچ حکمران طبقہ کو مسترد کردیا ہے ۔ بنیادی جمہوری حقوق کے گرد یہ تحریک ہر اعتبار سے مسلح جدوجہد سے موثر ہے ۔ یہ ایک اہم پیشرفت ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس ابھرتی ہوئی تحریک میں پروگرام کو زیر بحث لانا چاہئے اور ایک جمہوری تنظیمی ڈھانچہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے ۔ اس تحریک کو بلوچستان کے مسائل پر مرکوز ضرور ہونا چاہئے مگر محدود نہیں ہونا چاہئے کیونکہ فتح کی حقیقی ضمانت دیگر مظلوم اقوام اور تمام خطہ کے محنت کشوں کا اتحاد ہے ۔ جیسے پی ٹی ایم ایک اہم اتحادی ہوسکتی ہے ۔ اس طرح بالادست قوم کے سوشلسٹوں کا یہ فریض ہے کہ وہ بلوچ قوم کے جمہوری حقوق کی کمپین محنت کشوں میں کریں ۔ مظلوم اقوام اور محنت کشوں کا اتحاد ہی سامراجی تسلط اورریاست کو شکست دئے سکتا ہے ۔