بلوچ راجی مچی پر ریاست کا حملہ

Posted by:

|

On:

|

, ,

رپورٹ(انقلابی سوشلسٹ)

گوادر میں 29جولائی کوپرامن بلوچ قومی دھرنے کا گھیراؤ کرکے اس پر فائرنگ کی گئی اورشرکاء کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیاجس کے نتیجے میں کئی لوگ زخمی ہوئے اور سینکڑوں کو گرفتار کر لیا گیا ان میں بلوچ یک جہتی کمیٹی کے رہنما ڈاکٹر صبیحہ، سمی دین محمد بلوچ،شاہ جی اور صبغت اللہ کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔ریاست گوادر میں پرامن مظاہرین پر انتہائی ظلم و ستم کر رہی ہے۔ پورا شہرفوج کے کنٹرول میں ہے اورزخمیوں کو نکالنے کی اجازت نہیں دی جا رہی اور نہ ہی ایمبولینسوں کو راستہ دیا جا رہا ہے۔
گوادر میں 27اور 28جولائی سے فوجی اہلکار گشت کر رہے ہیں جو لوگوں کو دیکھتے ہی بلا اشتعال فائرنگ کر رہے تھے۔باہر سے آنے والے افراد بالخصوص بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کی گرفتاری کے لئے 27 اور 28 جولائی کی درمیانی شب مختلف گھروں میں چھاپے مارے گئے۔28 جولائی کو گوادر شہر کے مختلف مقامات پر راجی مچی میں شرکت کے لئے آنے والوں پرفائرنگ کی گئی جس سے متعدد افراد جاں بحق اور زخمی ہونے کی خبریں ہیں۔مواصلاتی رابطوں میں فقدان کے باعث اموات اور زخمیوں کی درست تعداد تاحال معلوم نہیں ہوسکی ہے۔ اس دوران سیکڑوں افراد گرفتار بھی کئے گئے ہیں۔
پدی زِر (میرین ڈرائیو) جہاں راجی مچی کا انعقاد ہونا تھا اس کا محاصرہ کیا گیا تاکہ کسی کو وہاں جمع نہ ہونے دیا جائے۔تمام جبر اور رکاوٹوں کے باوجود خواتین کی قیادت میں عوام فوج کو پسپا ہونے پر مجبور کرکے پدی زِر پر اکھٹے ہوگے۔ایک اندازے کے مطابق 60 ہزار افراد تمام تر رکاوٹوں کے باوجود وہاں جمع ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
بلوچ راجی مچی میں کراچی سے آنے والے قافلے کو کنڈ ملیر کے مقام پر روکادیا گیا بسوں کی ٹائروں کو فائرنگ کے ذریعے ناکارہ بنایا گیا آخری اطلاعات تک کراچی کا قافلہ کنڈ ملیر میں ہی پھنسا ہوا ہے۔ پنجگور، خاران، تربت اور چاغی کے مشترکہ قافلے کو گوادر سے چند کلومیٹر دور تلار کے مقام پر فائرنگ کے ذریعے روکا گیا۔ فائرنگ کے باعث کم از کم دو افراد کی شہادت کی خبرہے زخمیوں کی تعداد کا تاحال علم نہ ہوسکا ہے۔تلار میں پھنسے کچھ افراد دوبارہ پنجگور چلے گئے جب کہ باقی ماندہ افراد گاڑیوں کے ٹائر پھٹنے کے باعث وہاں پھنسے ہوئے ہیں۔کوئٹہ، مستونگ اور ڈی جی خان کے قافلے مستونگ کے قریب فائرنگ کا نشانہ بنے اس فائرنگ کے باعث 16 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔اس قافلے کے شرکا نے تاحال کوئٹہ کراچی شاہراہ پر دھرنا دے رکھا ہے۔
یہ تشدد اس کے لیے ہورہا ہے کہ ریاست تمام تر ہتکھنڈوں کے باوجود ناکام ہوگی ہے اور بلوچ قوم کی سیاسی جدوجہد سے ریاست خوفزدہ ہے اور وہ اسے ختم کرنا چاہتی ہے۔ریاستی تشدد کو چھپانے کے لیے الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کو آزادانہ رپورٹنگ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔اب ان پر ہی تشدد کا الزام لگا کرتحریک کو کچلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس تشدد اور گرفتاریوں کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی نے 30جولائی کو عام ہڑتال کی کال دی ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے جمعے کے روز بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اس موضوع پر کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی گوادر میں ہی یہ اجتماع کیوں منعقد کرنا چاہتی ہے؟ کوئٹہ یا بلوچستان کے کسی اور مقام کا انتخاب کیوں نہیں کیا جا رہا ہے؟وزیر اعلیٰ نے کہا کہ گوادر ایک بین الاقوامی شہر ہے اور اس میں سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے والا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ داسو میں پیش آنے والے واقعے کے بعد حکومت نے چین سے بات کر کے سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع کروانے کے لیے ایک ماحول بنایالیکن آج جب سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے لگا تو ان کو گوادر کی یاد ستانے لگی۔
حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ چونکہ گوادر میں اجتماع کے انعقاد کی اجازت نہیں لی گئی ہے اس لیے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قافلوں کو گوادر جانے سے روک دیا گیا ہے۔ محکمہ داخلہ نے موقف ہے کہ رکاوٹیں سیکیورٹی کی وجہ سے کھڑی کی گئی ہیں تاکہ لوگوں کے لیے خطرات کم کیے جا سکیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے راجی مچی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بلوچ قومی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے لیکن ااحتجاج ہمارا ایک آئینی حق ہے ہم انصاف کے لیے نکلے ہیں اور اپنے حقوق حاصل کر کے رہیں گئے۔ آج گوادر میں اس بڑے اجتماع نے ثابت کیا ہے کہ بلوچ اپنے حقوق پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ماہ رنگ نے مزید کہا کہ بلوچ قومی تحریک کو طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن وقت آ گیا ہے کہ ریاست ہوش کے ناخن لے اور بلوچستان میں جبر و بربریت کا خاتمہ کیا جائے۔بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دیگر راہنماؤں نے کہا ہمارے وسائل پر ہماری مرضی کے بغیرغیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کیے جا رہے ہیں جو ان کو قبول نہیں ہے اور بلوچ سیاسی کارکنان کو اپنے حق کی آواز بلند کرنے پر لاپتہ کردیا جاتاہے یہ ہمیں قبول نہیں ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان کی طرف سے رات گئے پریس ریلیز جاری کی گئی۔اس میں کہا گیا کہ بلوچ راجی مچی پدی زِر گوادر میں دھرنے کی صورت میں جاری ہے۔ اس سے قبل بلوچ راجی مچی صرف 28 جولائی کے دن ایک جلسے کی صورت میں ہونا تھا لیکن ریاست کے کریک ڈؤان نے ایک دن کے بلوچ راجی مچی کو اب دھرنے میں تبدیل کر دیا ہے اور اس بلوچ راجی مچی دھرنے کے اس وقت دو مطالبات ہیں۔ ایک جہاں ہمارے قافلوں کو زبردستی روکا گیا ہے ان تمام قافلوں کو گوادر آنے دیا جائے۔ دوسرا، ہمارے جتنے بھی لوگ گرفتار کیے گئے ہیں انہیں 48 گھنٹوں کے اندر رہا کیا جائے وگرنہ یہ دھرنا غیر معینہ مدت کے لیے جاری رہے گا اور ہم ان مطالبات پر ریاست کے ساتھ پدی زِر گوادر کے مقام پر مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اگر ریاست نے اب بھی عقل اور ہوش سے کام لینے کے بجائے پُر امن عوامی اجتماع کے مقابلے میں طاقت کا استعمال کیا تو گوادر سمیت پورے بلوچستان میں حالات ریاست کے کنٹرول سے مکمل طور پر باہر نکل جائیں گے۔
معروف ترقی پسند اور قوم پرست دانشور ذوالفقار علی زلفی کہتے ہیں کہ”بلوچ قومی سوال پر نظر آنے والا حالیہ عوامی ابھار دو دن کا واقعہ نہیں ہے۔یہ گزشتہ دو دہائیوں کے مسلسل دو طرفہ تشدد کا ارتقائی نتیجہ ہے۔بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین قیادت نوآبادیاتی آئین و قانون کے اندر رہ کر جدوجہد کی بات کرتی اور اسی فلسفے کو آگے بڑھا رہی ہیں“۔یہ سب ریاست کو کسی طور پر قبول نہیں ہے اس لیے ریاست نے گوادر میں بلوچ عوام کی شرکت کو روکنے کے لیے ریاستی مشینری خاص طور پر پولیس، ایف سی، فوج اور انٹیلی جنس اپریٹس نے متشدد اور جابرانہ کردار ادا کیاہے لیکن حقیقت یہ بلوچ قوم اب کسی طور پرریاستی جبروتشدد کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں انہوں نے خود کو سیاسی طور پر بلوچ یکجہتی کمیٹیوں میں منظم کیااور سیاسی جدوجہد کا آغاز کردیا انہوں نے بورژوا سیاسی پارٹیوں کو مسترد کردیا ہے اور ایک نئی قیادت ڈاکٹر ماہ رنگ،سمی بلوچ اور دیگر خواتین کی صورت میں سامنے آئی ہے۔جس کو ریاست ہر قیمت پر کچلنا چاہتی ہے اور اس کے خلاف پراپگنڈے کا آغاز کردیا گیا۔
یہ ایک خوفناک صورتحال ہے ہم بنگلادیش کی حالیہ طلباء تحریک میں دیکھ چکے ہیں کہ اتنی بڑی جدوجہد کے باوجود ریاستی کریک ڈاؤن ابھرتی ہوئی سیاسی تحریک کو پسپا ہونے پر مجبور کرسکتا ہے اور یہی صورتحال یہاں بھی بن سکتی ہے۔اس لیے ضروری ہے بلوچ یکجہتی کمیٹیوں کو محلہ اور کام کی جگہ پر منظم کیا جائے اور وہاں جمہوری طور پر تحریک کے مستقبل کا فیصلہ کیا جاسکے اور وہاں ہی ایسی حکمت عملی تشکیل دینی ہوگی کہ ڈیٹھ سکواڈ اور ریاستی حملوں کو تحریک کو کچلنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے۔بلوچستان کے سوشلسٹوں جو پہلے ہی اس تحریک کا حصہ ہیں اور گرفتار اور لاپتہ بھی ہیں ان کو اس سب کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطالبات کی حمایت کے ساتھ محنت کشوں کو اس جدوجہد کا حصہ بنتے ہوئے اس کی کامیابی کی جدوجہد کرتے ہوئے سوشلسٹ متبادل سامنے لانا چاہیے ہے۔اس کے لیے ان کومظلوم اقوام اور پاکستان کے محنت کش طبقہ سے یکجہتی کی اپیل کے ساتھ جدوجہد کی حکمت عملی کے لیے متحدہ محاذ کی تعمیر کی اپیل کرنی چاہیے ہے۔