تحریر:کریک لی
چین سے آنے والی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مارچ میں نیشنل پیپلز کانگریس میں اتحاد اور چاپلوسی کی زبان کے استعمال کے باوجود چین کوجن ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سنگین اقتصادی مسائل کا سامنا ہے اس نے پارٹی اورریاستی نظام کو تعطل اور مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔
یہ شی جن پنگ کے ماتحت پارٹی قیادت کی اقتصادی پالیسی کو تیار کرنے کے لیے قائم کردہ طریقہ کار پر قائم رہنے میں ناکامی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ عام طور پراس پر سب سے پہلے مرکزی کمیٹی کے مکمل اجلاس میں بحث کی جاتی ہے جو عام طور پر نومبر میں منعقد ہوتی ہے اور پھر دسمبر میں مرکزی اقتصادی ورک کانفرنس کے ذریعے مزید تفصیل سے تیار کی جاتی ہے۔ آخر میں اسے نیشنل پیپلز کانگریس کے ربڑ سٹیمپ ”دو سیشنز” اور مارچ میں دو ہفتوں تک چینی عوامی سیاسی مشاورتی کونسل کے اجلاس کے ذریعے معاہدے کے لیے پیش کیا جاتاہے۔ علامتی طور پر اس میٹنگ کو پہلے ہفتے کے بعد مختصر کر دیا گیا تھا اور کوئی بڑا اعلان نہیں کیا گیا یہاں تک کہ وزیر اعظم کی روایتی پریس کانفرنس بھی منسوخ کر دی گئی تھی۔
اگرچہ حکمران کمیونسٹ پارٹی نے اپنے مکمل کنٹرول میں سرمایہ داری کی بحالی کی کامیابی کے ساتھ نگرانی کی ہے لیکن حکومت کی قانونی حیثیت کا ایک اہم ذریعہ مسلسل اقتصادی ترقی اور آبادی کے معیار زندگی میں مسلسل بہتری کو برقرار رکھنا ہے۔ یہ کم و بیش گزشتہ تین دہائیوں کے دوران حاصل ہوا ہے تاہم2010 کی دہائی کے آخر میں چین اورامریکہ تجارتی جنگ کے وقت تک معیشت میں خرابی کے آثار پہلے سے ہی نظر آرہے تھے۔ بنیادی ڈھانچے میں رکاوٹیں اور ہائی ٹیک صنعتوں میں جدت کی کمی، غیر ملکی خاص طور پر امریکہ ک”فرینڈ شورنگ“، جنوب مشرقی ایشیا اور لاطینی امریکہ کے لیے مینوفیکچرنگ کاروبار اور امریکی پابندیوں کے طویل مدتی اثرات کی وجہ سے کی وجہ سے مزید تیزی کی راہ میں حقیقی رکاوٹیں تھیں۔.
۔1990 اور 2000 کی دہائیوں میں افراط زر کا چکر جو کہ گروتھ کے ساتھ تھااس کے ساتھ آہستہ آہستہ تفریط زر میں اضافہ ہوا یہ نہ صرف چین میں بلکہ عالمی سطح پر بھی کمزور مانگ کی وجہ سے ہوا جس سے چینی برآمدات میں کمی ہوئی۔ یہ مشکلات سال 2020 سے 2022 تک کوویڈ19 کے لاک ڈاؤنز اور دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات کے باعث مزید بڑھ گئیں۔ مثال کے طور پر 2023 کے پہلے چھ مہینوں میں چین کی امریکہ کو برآمدات میں 25 فیصد کمی واقع ہوئی۔ امریکہ کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر اب میکسیکو بن گیا ہے جبکہ چین تیسرے نمبر پر آ گیا ہے۔
اعلیٰ سطح پر ماہرین ملک کی پیداوار کی زائدصلاحیت کی مشکلات، انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی رکاوٹوں، جائیداد کی قیمتوں کے بلبلے، آمدنی کی یک طرفہ تقسیم اور دائمی تنزلی سے وابستہ مشکلات سے پوری طرح آگاہ تھے۔ 2021 میں بیجنگ نے ان خدشات پر 14 ویں پانچ سالہ منصوبے کے مسودے میں کام کیا جو کہ منصوبہ بند معیشت کے وقت سے وراثت میں ملا ہے جس نے اگلے پانچ سالوں کے لیے اقتصادی ترقی کی حکمت عملیوں کے لیے ایک بنیاد فراہم کرنا ہوتی ہے۔ اس منصوبے میں R&D سرمایہ کاری، دیہی تعلیم، صحت اور ماحولیاتی خدمات، سماجی بہبود، قومی آمدنی کی بہتر تقسیم اور لیبر مارکیٹ میں نوجوانوں کو جذب کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی یہ سب مل کر نسبتاً مالی استحکام اور ادائیگیوں کے صحت مند توازن کو قائم کرسکتی ہیں۔ تاہم چینی معیشت میں کچھ گہرے ساختی مسائل ہیں جو پارٹی اورریاستی نظام سے متعلق ہیں انہوں نے ان اہداف کو حاصل کرنا مشکل بنا دیا ہے۔
پہلا اور سب سے بڑا مسئلہ یقیناً جائیداد کے بلبلوں کا پھٹنا اور اس کے نتیجے میں بھاری قرضوں کا ہے۔ اس میں نہ صرف مشہور کارپوریشنز جیسے ایور گرانڈ اور کنٹری گارڈن شامل ہیں بلکہ مقامی اور صوبائی حکومتیں اور ان کے بنائے ہوئے ادارے، لوکل گورنمنٹ فنانسنگ وہیکلز، رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز کو زمین کی فروخت کے لیے فنڈ فراہمی کانتیجہ ہیں۔ پراپرٹی ڈویلپرز کے دیوالیہ پن نے مقامی حکومتوں کے لیے آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ جو25فیصد سے زیادہ تھا کوختم کردیاہے- ایک ایسے وقت میں جب وہ پہلے ہی بیجنگ کی طرف سے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن کے بھاری اخراجات سے دوچار ہیں۔ دوم بیجنگ کی کووِیڈکے دوران چھوٹے کاروباروں یا اجرت پر کام کرنے والوں کو معاوضہ دینے کے لیے بچاؤ کے منصوبوں پر عمل درآمد کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں کھپت میں بڑی کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ لوگ اپنی بچت کو روکے ہوئے ہیں۔ یہ بتاتا ہے کہ دوبارہ کھلنے کے بعد مارکیٹ میں تیزی کیوں نہیں آئی جیسا کہ زیادہ تر ماہرین اقتصادیات کو توقع تھی۔ اس سے بہت سی فرموں کے پاس فاضل ذخائر بڑھ گئے اس لیے وہ محنت کشوں کو فارغ کر رہے ہیں اوراس سے مانگ میں مزید کمی ہورہی ہے۔
تکنیکی طور پراگرچہ ایورگرینڈ اور دیگر کارپوریشنز کے قرضے بہت بڑے ہیں لیکن وہ ناقابل حل مسئلہ نہیں ہیں۔ قرض کی ری شیڈولنگ، نامکمل پراجیکٹس کو مکمل کرنے اور پھر فروخت کرنے کے لیے فنڈنگ، دیوالیہ فرموں کے ممکنہ طور پر قابل عمل حصوں کا انضمام، ”خراب بینک” میں قرضوں کی منتقلی، قرض دہندگان کے ساتھ زبردستی تصفیہ اور پراپرٹی کے سٹے باز کے اثاثوں کو ضبط کرنے کا مجموعہ ہی صنعت کے مالی بحران کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ ابھی تک اس طرح کے اقدامات پر عمل درآمد کے لیے بہت کم کام کیا گیا ہے درحقیقت ایورگرینڈ کے باس ہوئی کیان کے ساتھ کافی نرمی کا سلوک کیا گیا ہے۔ یہ حکومت کے اندر متضاد دباؤ اور وفاداریوں کا اظہار ہے۔ لیکن یہ سب کچھ نہیں ہے یہاں تک کہ اگر اس طرح کے اقدامات کو سختی سے لاگو کیا گیا توبھی اس سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا کہ معیشت کے بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری پر انحصار کرنے کی دیرینہ حکمت عملی سے کیسے دور ہواجائے یا مقامی حکومتوں کے بھاری قرضوں سے کیسے نمٹا جائے۔
معیشت کے دیوالیہ اور متروک دونوں شعبے اور ممکنہ طور پر متحرک اور منافع بخش شعبوں کی نمائندگی پارٹی ریاستی آپریٹس میں موجود ہے۔پارٹی کے اندار مفادات پر تقسیم ہے جس کی بنیادیں علاقائی،نسلی،پیشہ وارانہ اور سماجی اختلافات پر ہیں کہ باوجود یہ اکھٹے ہیں کیونکہ کہ ہر کوئی گزشتہ تیس سالوں کے مضبوط معاشی ترقی کے اعدادوشمار کے ذریعے ترقی کا یقین رکھتا ہے تاہم اس ”ترقی” میں دسیوں لاکھوں خالی اپارٹمنٹس اور ہزاروں کلومیٹر زیر استعمال ہائی سپیڈ ریلوے اور ہائی ویز شامل ہیں۔ ایک واضح مثال گوئزو صوبہ ہے۔ ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کے مطابق 2022 کے آخر تک گوئزو نے کل 8,331 کلومیٹر ہائی ویز تعمیر کی ہیں، جو جاپان کی کل 7,800 کلومیٹر کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ لیکن جاپان کے پاس ان شاہراہوں پر چلانے کے لیے 82 ملین کاریں ہیں جبکہ گوئزو کے پاس 6 ملین سے بھی کم کاریں ہیں۔ لاگت اور اس طرح کی سرمایہ کاری پر منافع کی کمی پارٹی ریاستی اپریٹس کے اندر ان کے الگ الگ مفادات کو تیزی سے متضاد بنا رہی ہے۔
عالمی سطح پر بھی چین کو متعدد مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک طرف اس کے ون بیلٹ ون روڈ پروگرام کے ذریعے سرمائے کی برآمدات کے ذریعے زائد صلاحیت کے مسئلے کو حل کرنے کے اپنے منصوبہ کو مکمل نہیں کرپائے ہیں۔ یوکرین کی جنگ اور امریکہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی دشمنی کے تناظر میں ایسا کرنا زیادہ مشکل ہو گا۔ ڈبلیو ٹی او میں موجودہ تعطل سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ چین واشنگٹن کے اتفاق رائے میں قائم کردہ ”قواعد پر مبنی حکم“’ کو کمزور کر رہا ہے لیکن یہ سرد جنگ کو ختم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ امریکہ مضبوط ترین فوجی طاقت کے ساتھ ایک عالمی بالادست ہے اور وہ اب بھی بریٹن ووڈز کے اداروں کو کنٹرول کرتا ہے جو اس کے تسلط میں بنائے گئے تھے اور اس تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے تھے۔
جی20اور برکس اور کے سربراہی اجلاسوں نے ظاہر کیا کہ چین کے لیے گلوبل ساؤتھ کے ممالک کے ساتھ تجارتی روابط کے ذریعے مستحکم اقتصادی شراکت داری قائم کرنا ممکن ہے۔ یہ نہ صرف چین کی پیداوار کے لیے نئی منڈیاں فراہم کرتے ہیں بلکہ اقوام متحدہ میں ان ممالک کے ووٹ حاصل کرکے عالمی حکمرانی میں چین کی اخلاقی اتھارٹی کو بھی بڑھاتے ہیں۔ حالانکہ چین کے گلوبل ساوتھ میں اثر میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ اب بھی امریکی کنٹرول کی سطح سے کم ہے۔ مزید برآں جیسا کہ مینارڈ کینز نے بہت پہلے کہا تھا ”کرنسی کی اہلیت“عالمی تعلقات کے لیے ضروری ہے۔ بیجنگ کی جانب سے یوآن کو بین الاقوامی بنانے کی بارہا کوششوں کے باوجوداس نے اب تک کوئی ایسی چیز نہیں بنائی ہے جو امریکی ڈالر کے افعال کے ساتھ قابل فہم طور پر موازنہ ہو۔ اس طرح یوآن کے کسی بھی حقیقی عالمی کردار کے لیے بینکنگ اور سرمائے کے کنٹرول کو نرم کرنے والی اصلاحات کی ضرورت ہوگی جیسا کہ ٹینسنٹ اور علی بابا فنانس کے معاملات واضح کرتے ہیں ایسی اصلاحات پارٹی ریاستی نظام سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ معاملات کو مزید خراب ہونے کی وجہ امریکہ میں شرح سود میں اضافہ ہے جس کی وجہ سے چین سے مسلسل سرمایہ باہر جارہا ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کابھی انخلا ہورہا ہے۔
یہیں سے تمام سیاسی مسائل شروع ہوتے ہیں اور پارٹی اورریاست کو اس وجہ سے مفلوجی کا سامنا ہے۔ دھڑے بندی کی لڑائی میں کامیابی حاصل کرنے اور اپنی ذاتی طاقت کے عروج پر پہنچنے کے بعدشی جن پنگ اب سفاکوں میں گھرے ہوئے ہیں اور ایک ایسے وجودی دوراہے پر پہنچ چکے ہیں کہ جہاں تاریخ میں اکثر آمروں کو غلط فیصلے کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
حال ہی میں عوامی قرضوں کے انبار اور عوامی مالیاتی بحران کے خوف سے شی نے مقامی حکومت کے اخراجات اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر کفایت شعاری نافذ کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ یہ پراپرٹی سیکٹر میں بدحالی کے ساتھ موافق ہے اور اس کا مشترکہ اثر آمدنی اور روزگار میں مزید کمی، لاکھوں افراد کو کام سے باہر کرنے اور پوری معیشت میں سپلائر فرموں کو دیوالیہ کرنے پر ہوگا۔ سیاسی حساسیت کے وقت یہ ایک خطرناک اقدام ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک ہی وقت میں اگر ژی پراپرٹی پرسٹہ بازی کرنے والوں کو معمول کے مطابق کاروبار جاری رکھنے کی اجازت دیتا ہے اور جائیداد کے بلبلوں کو نہیں روکتا جیسا کہ ایورگرینڈ کے باس کے ساتھ بہتر سلوک ظاہر کر سکتا ہے۔اس سے چینی معیشت مسائل میں اضافہ ہوگا۔ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 2023 میں تاریخی طور پر بلند ترین سطح پر پہنچ گئی اور کچھ ماہرین اقتصادیات کا اندازہ ہے کہ اب یہ 40 فیصد کے لگ بھگ ہے جو کہ سماجی بدامنی کا باعث ہو سکتی ہے۔ مسائل کا یہ مجموعہ ہر ایک پارٹی اور ریاستی نظام کے اندر مختلف طبقوں کو متاثر کرتا ہے ژی کی پہلے سے زیادہ آمرانہ حکمرانی اور ایک نیا معاشی ماڈل تلاش کرنے میں ان کی نااہلی جو یک جماعتی آمریت کے تحت معاشی ترقی کو فروغ دے سکے۔
نتیجہ اخذ کرنے کے لیے جو چیز چین کے موجودہ بحران کو دوسرے سامراجی ممالک سے مختلف بناتی ہے وہ اس کی حکمرانی ہے یہ سرمایہ دارانہ حکومت نہیں ہے بلکہ ایک سٹالنسٹ پارٹی اورریاست جو ایک منصوبہ بند معیشت سے شروع ہوئی تھی لیکن اب وہ سرمایہ دارانہ معیشت میں اپنی حکمرانی برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔