تحریر:پیٹرمین
سری لنکا کے صدر کے طور پر نیشنل پیپلز پاور اوراین پی پی کے انتخابی اتحاد امیدوارانورا کمارا ڈسانائیکے کا انتخاب سری لنکا کی سیاسی تاریخ میں ایک حیرات انگیز ٹوٹ پھوٹ کی علامت ہے۔ یہ حکومت کے بحران کا خاتمہ ہے جس کا آغاز 2022 میں ”ارگالیا” کے ساتھ ہوا جو گوتابایا راجا پاکسا کی بدعنوان حکمرانی کے خلاف بغاوت تھی۔
ارگالیا
سری لنکا میں بڑے پیمانے پر مظاہرے جو صدارتی محل پر دھاوا بول کر اور راجا پاکسا کے بھاگنے کے ساتھ ختم ہوئے۔یہ مظاہرے نسبتاً بہتر میعار زندگی گزارنے والوں نے شروع کیئے تھے کیونکہ وہ تیزی سے بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال سے شدید متاثر ہوئے۔ جلد ہی ان کے ساتھ ہزاروں دوسرے لوگ بھی شامل ہو گئے جنہوں نے گیلے فیس گرین پر ایک مستقل کیمپ قائم کیا۔
1948 میں برطانیہ کے جانے کے بعد سے سری لنکا پر حکومت کرنے والی اہم سیاسی جماعتوں کے نمائندے وبال سے مکمل طور پر غائب تھے اور شہریوں کی بڑی تعداد نے ان کو مسترد کردیا تھا۔حکمران طبقہ کے ان راہنماؤں نے وبال کے پھیل جانے کے بعد اس پر قابو پانے کے لیے ایک میٹنگ کی تھی۔
احتجاجی تحریک کی سیاسی قیادت کی عدم موجودگی نے ان کو موقع فراہم کیاکیونکہ راجاپکسا کے اقتدار کے خاتمے کے بعد تحریک ختم ہونے لگی تھی۔راجا پکسا کے بعد ایک عبوری حکومت کا پلان پیش کیا گیا جس میں تجربہ کار سابقہ وزیراعظم رانیل وکرما سنگھے جو اپنی پارلیمانی نشست بھی جیتنے میں ناکام ہوگے تھے لیکن ان کی پارٹی نے قومی سطح پر ایک نشست حاصل تھی، ان کو ان کے سیاسی مخالفین کی ایک درجہ بندی کے ذریعے صدر مقرر کیا گیاان میں راجہ پکسا کی پارٹی کے ممبرز سرفہرست تھے۔
جے وی پی کی حکمت عملی
اگرچہ جے وی پیGalle Face Green سے غیر حاضر تھی لیکن یہ پارٹی پارلیمانی جمہوریت کی دھوکہ دہی میں شامل نہیں رہی تھی۔جناتھا ویمکتھی پرامونا پیپلز لبریشن فرنٹ(JVP)۔ 1960 کی دہائی کے وسط میں ایک جفاکش قوت کے طور پر قائم ہوئی۔یہ ماو زے تنگ اور چے گویرا کی عسکری اور سیاسی حکمت عملیوں سے بہت زیادہ متاثر تھی لیکن ا س کی پالیسیوں میں پچھلی دہائیوں میں تیز رفتار تبدیلیاں آئیں ہیں۔
ان میں دو مہم جوئی پر مبنی مسلح بغاوتیں بھی شامل ہیں۔یہ1980 کی عام ہڑتال کو توڑنے کے لیے متحرک ہوئے۔1990 کی دہائی میں بائیں بازو کے خلاف ایک قاتلانہ مسلح مہم شروع کی اس کے بعد یہ انتخابی سیاست میں آئے اور مخلوط حکومت کا حصہ بنئے جس میں ڈیسانائیکے وزیر تھے اور انہوں نے تاملوں کے خلاف وحشیانہ جنگ میں مہندا راجا پاکسا کی حمایت کی تھی۔
اس دفعہ پارلیمنٹ میں ان کی صرف تین نشستیں تھیں اور ان کو عبوری حکومت کی مشاورات کے لیے بھی نہیں بلایا گیا لیکن یہ عوامی سطح پر انتخابی مہم میں مصروف رہے۔ انہوں نے اپنی سیاست کو این پی پی میں مدغم کردیا اور سری لنکامیں وکرما سنگھے حکومت کے خلاف بڑے مظاہرے شروع کردئیے۔ یہ ایک اچھی طرح سے سوچی سمجھی حکمت عملی تھی۔ حکمران طبقہ کی جماعتوں کے مقابلے میں خود کو نظام کے باہر ایک پارٹی کے طور پرپیش کیا۔این پی پی نے بہت سی تقسیموں نسلی، ثقافتی اور مذہبی جن کی عام طور پر جے وی پی سمیت تمام جماعتوں کی طرف سے حوصلہ افزائی ہوئی ان سے ووٹ کی اپیل کی۔
آئی ایم ایف کے ساتھ وکرما سنگھے کے معاہدے کے لیے درکار بہت سے اقدامات کے خلاف مہم چلاتے ہوئے ڈسانائیکے نے متوسط طبقے کو یقین دلایا کہ صرف اس معاہدے کے کچھ بدترین پہلوؤں میں ترمیم کرئیں گے۔ یہ آئی ایم ایف کی بیل آوٹ کی اگلی قسط کو ممکن بنائے گا اگر وہ منتخب ہو جاتا ہے۔ یہ ماضی کے حکمران خاندانوں پرانتہائی عدم اعتماد تھا کہ اس طرح کے ایک فطری طور پر متضاد سیاسی پروگرام کے باوجود وہ صدر منتخب ہوگئے۔
آگے کیا ہوگا؟
صدر منتخب ہونے کے بعد اس نے مخالف پارلیمانی اکثریت کا سامنا کرتے ہوئے فوری طور پر پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا۔پارلیمانی انتخابات 14 نومبر کو ہوں گے اور سابق حکمراں جماعتوں میں انتشار کو دیکھتے ہوئے یہ بات آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ پارلیمنٹ میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔
صدرات کے آغاز پر ہی ڈسانائیکے آئی ایم ایف کے پیکج کو لاگو کرنے کا سامنا ہے جس میں اگر یہ کچھ کاسمیٹک تبدیلیوں کربھی پاتا ہے تو اس کا مطلب اکثریت کے معیار زندگی پر مسلسل حملے ہوں گے۔ جے وی پی محنت کشوں کی پارٹی نہیں ہے لیکن اس کے پاس کئی یونینوں کی قیادت ہے۔ تمام یونینوں کے ممبرزاپنے رہنماؤں سے مطالبہ کریں کہ وہ محنت کش طبقے، کسانوں اور ماہی گیروں کی قیمت پر سری لنکا کے جاری معاشی بحران کو حل کرنے کی ہر کوشش کی مخالفت کرنے کے لیے اقدامات کو مربوط کریں۔
طویل مدت میں ملیٹنٹ اور مختلف چھوٹے سوشلسٹ گروپوں کے ایکٹوسٹوں کی ترجیح محنت کش طبقے میں حقیقی طور پر جڑیں رکھتی ہوئی ورکرز پارٹی کی تعمیر کے لیے حکمت عملی کے لیے کوشش ہونی چاہیے ہے۔ یہ موجودہ چھوٹے گروپس کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ یہ کردار ادا کرسکیں جن کاکوئی بھی امیدوار حالیہ انتخابات میں 1% ووٹ حاصل کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکاہے۔
اگرچہ ٹریڈ یونین تحریک بہت زیادہ بکھری ہوئی ہے لیکن یہ یقیناً محنت کش طبقے کے مفادات کے دفاع کے لیے مشترکہ اقدامات اور جدوجہد کو فروغ دینے کا نقطہ آغاز ہے۔ اس میں کام کے ذریعے سب سے زیادہ پرعزم محنت کش طبقہ کو ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت کے لیے جیتا جا سکتا ہے جو پورے جزیرے میں محنت کش طبقے اور مظلوموں کے مفادات کے لیے لڑے۔ اس کے اندرانقلابی ایک ایسی پارٹی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور محنت کشوں کی اپنی تنظیموں پر مبنی ریاست کی تشکیل کے ذریعے مزدور طبقہ کی حکومت قائم کرتی ہے۔