تحریر:مارٹن سونہک:ترجمہ عرفان خان
روس، امریکہ اور یوکرین کے درمیان 30 روزہ جنگ بندی پر زوروشور سے بات چیت جاری ہے جو 23 مارچ کو شروع ہوئی تھی۔ اس کے نتیجے میں اب تک ایک محدود معاہدہ ہوا ہے یعنی بلیک سی میں توانائی کے بنیادی ڈھانچے یا سمندری ٹریفک پر حملہ نہیں ہوگا لیکن روس نے فوری طور پر واضح کیا کہ یہ جنگ بندی تب ہی نافذ العمل ہو گی جب اس کی خوراک اور کھاد کی تجارت پر سے پابندیاں ختم جائیں گی۔
زیلنسکی نے ردعمل میں کریملن پر جنگ بندی کی شرائط میں جوڑ توڑکا الزام لگایا ہے تاہم امریکہ روس پر کسی بھی قسم کی تنقید نہیں کررہا لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ اس معاہدے کا کیا نتیجہ نکلے گاالبتہ کریملن اور وائٹ ہاؤس مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ مذاکرات میں روسی نمائندئے گریگوری کاراسین جس نے امریکہ کے ساتھ مشترکہ بیان کی جاری کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا اس نے کہا ہے کہ”ہم نے ہر چیز کے بارے میں شدیدبحث کی جوآسان نہیں تھی لیکن ہمارے اور امریکیوں کے لیے بہت مفید ہے“۔
پیش رفت
روس کے لیے اب تک ہونے والی بات چیت کو مثبت سمجھنا سمجھ میں آتا ہے۔ بہر حال امریکی انتظامیہ کی تبدیلی نے پوٹن اور ان کی کابینہ کے لیے ”امن“کے امکانات کو کھول دیاجو درحقیقت روس کی جنگی کامیابیوں کو ذلت آمیزانداز میں تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔
یوکرین کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کے فوائد درج ذیل ہیں۔
روسی فتوحات کو تسلیم کرنا اور یوکرین کے تقریباً 20 فیصد علاقے کو روس کے حوالے کرنا۔
یوکرین کے لیے نیٹو کی کوئی رکنیت نہیں، چاہے غیر متعینہ ”سیکیورٹی گارنٹی“کا وعدہ کیا گیا تھا۔
روس کے خلاف پابندیاں اٹھانا۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ اس کے لیے جنگ کو جلد ختم کرنا ضروری تھا کیونکہ یہ امریکا کے اسٹریٹجک مفاد میں نہیں تھی۔ بلکہ یہ وسائل کو ہڑپ کر رہی تھی جو اصل دشمن چین پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے درحقیقت پہلے ہی کم ہیں۔ وینس اور دوسرے ٹرمپسٹ ایک عرصے سے یہ کہ رہے ہیں۔ ہیریٹیج فاؤنڈیشن کی حکمت عملی کے کاغذات (خاص طور پر پروجیکٹ 2025) میں بھی اس طرف رجحان نظر آتا ہے۔ حالانکہ یہ ابھی تک سرکاری پالیسی نہیں تھی لیکن ٹرمپ کا عمل کسی بھی طرح حیران کن یا اچانک ”پوٹن بیانیہ“کو اپنانا نہیں ہے۔ جس چیز کو اب ”امن پلان“کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے وہ 2024 سے اس کی حکمت عملی کی اہم خاصیت تھی۔
اس میں یوکرین کے قدرتی وسائل کی امریکہ، روس اور مغربی یورپ کے درمیان تقسیم بھی شامل ہے۔ امریکہ اور روس کے درمیان طے شدہ معاہدے سامراجی طاقتوں کے درمیان تعلقات میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ سب سے پہلے امریکہ کی طرف سے روس کو ایک عظیم طاقت کے طور پر تسلیم کیا گیاہے جس کے ”سیکورٹی مفادات“ یعنی اس کے نیم نوآبادیاتی دائرہ اثر پر کنٹرول کو تسلیم کیا جانا ہے۔ امریکہ کو اس سے یہ امید ہے کہ وہ روس کے چین کے ساتھ قریبی سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو کم کر سکے گا یا کم از کم ان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے سے روک سکے گا۔ اس لیے امریکی سامراج کے یوکرائن کی جنگ میں مقاصد بنیادی طور پر تبدیل ہوگے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات میں اور سب سے بڑھ کر اس کے اہم سامراجی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی آئی ہے۔ یہ معاہدہ یورپی یونین کے لیے نہ صرف ایک گہرے دھچکے کو ظاہر کرتا ہے بلکہ سابقہ”’ٹرانس اٹلانٹک پارٹنرشپ“کے ٹوٹنے کی بھی علامت ہے۔یہ اس کے مواد کی وجہ سے نہیں بلکہ بنیادی طور پر اس وجہ سے کہ جس طرح اس پر بات چیت کی گئی تھی اس میں نہ صرف یوکرین بلکہ یورپی یونین کے لیے بھی کوئی اہم کردار نہیں ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین کی طاقتیں اب اتحادی نہیں ہیں یہ کھلی حریف ہیں۔
دیرپا امن؟
کیایورپی ریاستیں خود کو مکمل طور پر امریکہ کے تابع کر لیں گی؟ جیسا کہ ٹرمپ حکومت کو امید ہے لیکن یہ کسی بھی طرح سے یقینی نہیں ہے۔ وہ یورپی یونین کودوبارہ نئی بنیاد پر منظم کرسکتے ہیں یا جرمنی اور فرانس کے گرد منظم مرکزی یورپ کو ایک ایسے بلاک میں تبدیل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں جو عالمی طاقت کے طور پر کام کرنے کے قابل ہو۔
ممکنہ جنگ بندی یا یہاں تک کہ ”طویل مدتی امن“جیسا بھی نظر آئے دونوں میں سے کوئی بھی دو وجوہات کی بنا پر دیرپا امن کا باعث نہیں بنے گا۔ اول یوکرین میں قومی جبر میں اضافہ ہوگااور یوکرین کا ایک حصہ روسی نوآبادی بن جائے گا جب کہ بڑاحصہ معاشی طور پر مکمل طور پر امریکہ اور مغربی یورپ پر انحصار کرئے گا۔ دوم چاہے یہ یورپی فوجوں کی تعیناتی کا علاقے ہو یا بفر زون ہویہ ہر صورت میں روس اور مغربی یورپ کے درمیان اور ہزاروں کلومیٹر طویل مسلح محاذ کے ساتھ بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کا مرکز ہوگا۔
یوکرین میں امکانات
موجودہ امن مذاکرات یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ یوکرین جنگ کبھی بھی پراکسی وار نہیں تھی۔عالمی تناظر کے باوجود یوکرین کا دفاع ایک جائز کرداررکھتا تھا اور اب بھی ہے۔ تاہم زیلنسکی اور یوکرائنی بورژوازی نے ملک کے محنت کشوں اور کسانوں کو مغرب پر سیاسی، فوجی اور اقتصادی انحصار کے جال میں جکڑ کر اس کے مفادات کو اپنے اتحادیوں کے تابع کر دیا ہے۔ آج تک زیلنسکی امریکہ کے ساتھ اختلافات کو کم کرنے کی کوشش کررہا ہے اور خود کوخوش کن دھوکادئے رہا ہے اور یوکرین کے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نایاب زمین اور دیگر دھاتیں (ٹائٹینیم) امریکہ کو فروخت کررہاہے۔
وہ نہ صرف حالیہ مذاکرات میں بلکہ پوری جنگ میں مثال کے طور پر اپوزیشن جماعتوں اور تنظیموں پر پابندی لگا کر یا ٹریڈ یونین کے حقوق کو مجروح کر کے اس پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس سب نے یوکرین کو ایک انتہائی مشکل صورتحال میں ڈالنے اور روس اور امریکہ کی طرف سے طے شدہ امن کا مقابلہ کرنے کے قابل ہی نہیں چھوڑاہے۔
اس تناظر میں روسی سامراجی حملوں کے خلاف جائز قومی دفاع کا عنصر ایک بار پھر سامنے آرہا ہے لیکن زیلنسکی کی حکومت اور یوکرائنی بورژوازی کا کردار بہت رجعتی ہے وہ مغربی ”یقین دہانی“کے بدلے امریکہ اور یورپی یونین کی کارپوریشنوں کو ملک فروخت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ ”اتحادی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضے بھی پرامن“ملک کا مزید خون بہائیں گے۔
جب تک روس کی جنگ جاری ہے یوکرین اپنے دفاع کا حق رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انقلابیوں کو یوکرین کے عوام کو مغربی اتحادیوں سے امید لگانے کے خلاف خبردار کرنا چاہیے یہ صرف ٹرمپ کا دھوکا ہی نہیں بلکہ جرمنی، برطانیہ اور یورپی یونین بھی ان کی کوئی مدد نہیں کریں گے۔
یوکرین میں جدوجہد کو ملک کو بیچنے کے خلاف لڑائی اور تمام نجی کاری کی گئی کمپنیاں واپس سرکاری تحویل میں لینے، قرض کی منسوخی اور محنت کشوں کے کنٹرول میں تعمیر نو کے پروگرام کے ساتھ جوڑنا چاہیے۔ محنت کش مخالف اور یونین مخالف قوانین نیز زیلنسکی حکومت کی طرف سے جمہوری حقوق پر حملے اورخاص طور پر اپوزیشن جماعتوں اور روسی بولنے والی اقلیتوں پر پابندیاں لگائی گئی ہیں، ان کی سرگرم مخالفت کرنی چاہیے۔ مختصر یہ کہ محنت کش طبقے کو ایک آزادسیاسی طاقت کے طور پر کام کرنا چاہیے تاکہ ایک نئی انقلابی پارٹی تعمیر کی جاسکے جو زیلنسکی اور نہ ہی کسی دوسری بورژو اء قوت کو اپنی حمایت دئے۔
روس کے زیر قبضہ علاقوں میں یوکرین کے اتحا د نو کی لڑائی کو پوٹن حکومت کے خاتمے اورروسی سامراج کے خلاف ہونا چاہیے اور اسے نئے روسی مزدور انقلاب کے لیے لڑی کے ساتھ جڑنا چاہیے جو قومی خود ارادیت (بشمول علیحدگی کے حق) کے حق کو تسلیم کرے۔
مغرب میں ہمیں ایک طرف یوکرین کے حق خود ارادیت کا دفاع کرنا چاہیے لیکن دوسری طرف ہمیں قومی فوجوں اور نیٹو کو دوبارہ مسلح کرنے کو مسترد کرنا چاہیے ہے۔ جنگ بندی کی صورت میں انقلابیوں کو یوکرین میں مغربی فوجیوں کی کسی بھی تعیناتی کو مسترد کرنا چاہیے خواہ ان کے اپنے پرچم کے نیچے ہو یا نیٹو یا اقوام متحدہ کے تحت ہو۔ یہ روس کے ساتھ مستقبل کی ممکنہ جنگ میں استعمال ہوں گے۔ یہ مغربی سرمایہ داری میں یوکرین کے شامل ہونے اور اس کے نتیجے میں مزدور طبقہ اور کسانوں کی جانب سے مغربی کارپوریشنوں کے استحصال کے خلاف وبال کو بھی دبائیں گئیں۔
یوکرین کی قومی خود ارادیت کا حق نہ تو مغرب اور نہ ہی یوکرائنی بورژوازی حاصل کرسکتی ہے۔ بلکہ اس کے لیے یوکرائنی، روسی اور مغربی یورپی محنت کش طبقے کی بورژوازی اور سامراجی نظام کے خلاف اور محنت کشوں کی حکومتوں اور سوشلسٹ یورپ کے لیے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہوگی۔
Leave a Reply