سوشلسٹ ریزسٹنس رپورٹ
8 مارچ کو پاکستان کے مختلف شہروں میں پدرشاہانہ تشدد کے خلاف احتجاجات منعقد کئے گئے، جس میں عورتوں کے علاوہ صنفی اقلیتوں، مردوں، بچوں اور بوڑھوں نے بھی شرکت کی۔ جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف آواز اٹھائی گئی، پھرپور نعرے لگائے گئے اور ساتھ مسنگ پرسنز و دیگر مسائل کو بھی اُجاگر کیا گیا۔
کراچی میں فریئر ہال پر دھرنا دیا گیا جس میں تقریباً 3500 شرکاء تھے۔ احتجاج میں خواجہ سرا اور دیگر صنفی اقلیتوں نے بھی بڑی تعداد میں بھرپور شرکت کی اور اپنے مسائل پر آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ اپنے پرچم بھی لہرائے۔ اس کے علاوہ تحریک نسواں کی شیمہ کرمانی نے رقص کیا اور مائی ڈھائی نے لوک موسیقی پیش کی۔ رقص میں دیگر عورتوں اور صنفی اقلیتوں نے حصہ لیا۔
اسٹیج سے تقاریر کے دوران اہلِ تشیع افراد پر جبر کے ساتھ ساتھ لاپتہ افراد کے مسئلہ پر بھی بات ہوئی۔ مقررین نے ریاست کو للکارا اور اپنے ساتھ ہونے والے جبر پر جواب طلب کیا۔ خواجہ سرا افراد نے سماج میں اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکی اور جبر پر بات رکھی۔
اس سال پہلی مرتبہ عورت مارچ نے حکومت انتظامیہ کے طےشدہ روٹ سے آگے بڑھتے ہوئے فریئر ہال سے نکل کر شہر کی مین شاہراہِ فیصل پر بھی دھرنا۔
شرکاء میں محنت کش خواتین کی تعداد بورژوا خواتین سے قدرے زیادہ تھی۔ ایک اور خوش آئند پیش رفت یہ تھی کہ عورت مارچ کی لیڈران نے اس سال خود کو تھوڑا پیچھے رکھا اور مظلوم افراد کو زیادہ جگہ دی۔
لاہور میں عورت مارچ پریس کلب سے شروع ہوتا ہوا فلیٹیز ہوٹل کے سامنے اختتام پذیر ہوا۔ خواتین بہت پر جوش نظر آئیں۔ اس موقع پر “ساڈا حق ایتھے رکھ” سمیت عورت کی آزادی کے نعرے بھی لگتے رہے اور عورتیں مختلف گانوں پر رقص بھی کرتی رہیں۔اس سال کا تھیم عورت کی جنسی ہراسانی اور ریپ کی مخالفت تھا۔ اس حوالے سے ایک بڑے بینر پر عورتوں نے اپنے تجربات لکھ رکھے تھے کہ کیسے انہیں جنسی ہراسانی اور ریپ کا سامنا کرنا پڑا۔ جہاں عورت مارچ نے ختم ہونا تھا وہاں ان عورتوں کے کپڑے لٹکائے گئے تھے جن کو جنسی جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ شرکاء کی تعداد 1500کے قریب تھی اور اس میں 300سے 400 مرد بھی تھے۔ زیادہ تر نوجوان لڑکیاں تھیں لیکن نوکری پیشہ عورتیں اور بڑی عمر کی خواتین بھی شامل تھیں۔ لاہور کے شرکاء میں زیادہ تر عورتیں اپر مڈل یا مڈل کلاس پس منظر سے تھیں لیکن کچھ سرکاری یونیورسٹیز کی لڑکیاں بھی شریک ہوئیں۔ اس کے علاوہ ایک مختصر تعداد محنت کش خواتین کی بھی تھی۔
یہ پدرسری کے خلاف عورتوں کا میلہ تھا۔سٹیج سے عورت پر جبر کے خلاف بات ہوئی اور اس کے علاوہ مسنگ پرسنز اور اطراف میں ریاستی جبر کی بھی مذمت کی گئی ۔ بلوچ مسنگ پرسنز، خاص کر کریمہ بلوچ، کے حوالے سے بھی پوسٹرز موجود تھے۔
لاہور میں رجعتی قوتوں نے بھی مظاہرہ کیا اور وہ عورت مارچ پر حملہ آور ہونا چاہتے تھے۔ ان کو عورت مارچ کے قریب تک آنے دیا گیا بس آخری موقع پر پولیس نے انہیں آگے بڑھنے سے روکا۔ اسی قسم کی دھمکیاں اسلام آباد کے عورت آزادی مارچ کو بھی دی گئی تھیں جہاں انتظامیہ نے اس جواز پر این او سی دینے میں رکاوٹیں ڈالی کہ دائیں بازو کی جماعتوں نے بھی وہیں عورت مارچ مقابل دھرنا دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ باوجود این او سی نہ ملنے کے، خواتین نے دھرنا دیا جس کے بعد انہیں این او سی دیا گیا۔
اس کے علاوہ ملتان، حیدرآباد، سکھر، پشاور و دیگر شہروں میں بھی محنت کش خواتین کے عالمی دن کے حوالہ سے ریلیاں اور پروگرام منعقد کئے گئے۔
انقلابی سوشلسٹ موومنٹ یہ سمجھتی ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے جبر کا نتیجہ ہے کہ عورتیں اس طرح سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئی ہیں۔ جہاں ایک طرف بلوچ و دیگر مظلوم اقوام کی خواتین ویسے ہی اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے سڑکوں پر نکلنے پر مجبور رہی ہیں، وہاں سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام، اس کا بورژوا خاندان کا ادارہ اور اس کی صنفی تقسیمِ محنت کے نتیجہ میں جنم لینے والے رجعتی صنفی امتیاز و جنسی تشدد نے دنیا بھر میں عورتوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اس جبر کے خلاف آواز اٹھائیں۔ یہ سرمایہ داری نظام کی منطق ہے جو تضادات سے پنپ رہی ہے کہ ایک طرف یہ جبر ہے تو دوسری طرف کام اور تعلیم حاصل کرنے کے سبب محنت کش اور لوئر مڈل کلاس کی خواتین کا شعور بنیادی جمہوری حقوق کے حوالہ سے کسی حد تک آگے بڑھ رہا ہے کیونکہ تعلیم اور کام کے مواقع انہیں ایک دوسرے سے اور مختلف نظریات سے رابطہ میں لا رہے ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا تک رسائی نے لوئر مڈل کلاس کی خواتین کے اپنے بنیادی جمہوری حقوق کے حوالہ سے شعور کو محدود ہی سہی مگر ایک یا دوسرے انداز میں وسیع کرنے میں مدد کی ہے۔ یوں تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں چار سال پہلے بھی 8 مارچ کو مختلف پروگرام منعقد کئے جاتے تھے۔ البتہ پچھلے چار سالوں میں خواتین کی ابھرتی ہوئی تحریک کو خواتین کی عالمی تحریک کے تناظر میں سمجھنا ہوگا۔ عالمی عورت ہڑتالوں اور می ٹو موومنٹ پاکستان کی مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی خواتین کے شعور پر اثر انداز ہوئی اور ان خواتین نے بالآخر طے کر لیا کہ اب آئے روز کی جنسی ہراسانی پر خاموشی کا طوق وہ اپنے گلی سے اتار پھینکیں گی اور اپنی بنیادی آزادیوں کے لئے مارچ کریں گی۔ چار سال سے اس نئی ابھرنے والی تحریک کے کردار کو سمجھنا ہوگا۔ اس تحریک نے عورتوں کو اپنے روز مرہ کے مسائل پر آواز اٹھانے کا حوصلہ دیا۔ اپنے جسم پر اپنی خود مختاری کے حق کے لئے آواز اٹھانے کی ہمت دی۔ گو کہ اب تک یہ تحریک بڑے اور درمیانے شہروں تک محدود ہے، اس میں ہر سال محنت کش اور لوئر مڈل کلاس کی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، بالخصوص کراچی جیسے بڑے شہروں میں۔
اس دور کا سب سے اہم سوال اب یہ ہے کہ خود رو انداز میں پھوٹنے والی اس اہم اور شاندار مارچ سے جب محنت کش خواتین جڑ رہی ہیں تو ان کی قیادت کو کیسے یقینی بنایا جائے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام اور بورژوا خاندان کی صنفی تقسیمِ محنت ہی عورت پر جبر کی جڑ ہیں اور اس جڑ کا مقابلہ محنت کش عورت کی قیادت میں ایک سوشلسٹ پروگرام کے تحت ہی ممکن ہے۔ یقیناً ہر سال فیمنسٹ قیادتیں مارچ کے مطالبات میں محنت کش خواتین اور مظلوم صنفی اقلیتوں کے مسائل پر بھی ایک آدھ مطالبات شامل کرتی ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ناکافی ہے کیونکہ اس نظام کا مقابلہ کئے بغیر عورتوں کی اکثریت جو محنت کشوں پر مشتمل ہے، کبھی بھی آزاد نہیں ہو سکتی۔ محنت کش عورتوں کے مفادات بہت واضح طور پر دیگر بورژوا و پیٹی بورژوا طبقات کے مفادات سے بنیادی طور پرمختلف ہیں۔ محنت کش عورت کا مفاد نجی ملکیت کے خاتمہ میں ہے جبکہ بورژوا و پیٹی بورژوا طبقات کی خواتین کا مفاد اس نجی ملکیت کے دفاع میں ہے۔ لہٰذا محنت کش عورت کی قیادت کو یقینی بنانے کے لئے سوشلسٹوں کو اس تحریک میں بھرپور مداخلت کرنا ہوگی اور مفت اور سماجی کچن و کینٹینز، مفت و سماجی لانڈریاں، مفت و سماجی دار الاطفال کے مطالبات کے گرد جدوجہد تعمیر کرنا ہوگی تاکہ عورتوں کی اکثریت کو “گھر کے کام” سے نجات دلائی جا سکے۔ ہم اس گھر کے کام کی نجی نوعیت کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں اور اس جدوجہد کے قائد صرف محنت کش ہی ہو سکتے ہے کیونکہ پیٹی بورژوا اور بورژوا خواتین کے لئے یہ تمام کام ویسے بھی ملازم ہی کرتے ہیں اور ایک کثیر الطبقاتی تحریک کی علمبردار لبرل اور ریڈیکل فیمنسٹ لیڈروں کے ایجنڈا پر یہ مسئلہ کبھی بھی سرِ فہرست نہ ہوگا۔ یہ ایجنڈا سوشلسٹوں، سرمایہ داری مخالفین اور محنت کشوں کا ایجنڈا ہے۔ لہٰذا اگر ہم واقعی عورتوں کی وسیع اکثریت کی آزادی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اس ایجنڈا پر کام کرتے ہوئے اس تحریک کو ایک سالانہ ایونٹ سے ایک حقیقی تحریک میں تبدیل کرتے ہوئے نظام کے خلاف علم بلند کرنا ہوگا۔
اسی طرح ہم یہ سمجھتے ہیں کہ محنت کش خواتین اور صنفی اقلیتوں کو اپنے جدوجہد کے حقیقی ساتھیوں کو پہچاننا ہوگا۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو لاہور کی ایک فیکٹری مزدور کو جبر کا نشانہ بناتا ہے اور یہی وہ جبر ہے جو شبیر بلوچ کی اہلیہ اور بہن کو اس کی رہائی کے سلسلہ میں سالوں سے در در کی ٹھوکریں کھلا رہا ہے۔محنت کشوں کا دشمن ایک ہے اور وہ دشمن یہ چاہتا ہے کہ دیگر محنت کش ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھ کر تقسیم در تقسیم رہیں۔ شہری مراکز کی محنت کش خواتین کو اطراف کی محنت کش خواتین کے مسائل کے گرد جدوجہد کا حصہ بننا ہوگا تاکہ ایک مشترکہ جدوجہد کے ذریعہ محنت کش مرد، خواتین و صنفی اقلیتیں اس نظام کو شکست دے کر ایک منصفانہ سوشلسٹ نظام کا قیام کر سکیں۔
سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!