تحریر:عبدالوحید
“ہم سب ہانپتے، کانپتے، سخت سردی سے جوجتے،جب طے کردہ چوٹی سے تھوڑا نیچے رہ گئے تو میں نے ٹوٹتی ہمت کو ایک بار پھر اکٹھا کیا اور دوڑ کر چوٹی پر پہنچتے ساتھ ہی انڈیا کی طرف منہ کر کے پیشاب کی دھار مارنے لگا۔پیشاب سے نکلتا دھواں ہوا میں غائب ہونے لگا اور سفید برف کے اوپر پیلاہٹ کا رنگ اُبھرنے لگا۔ عضو میں شدید ٹھنڈ کی وجہ سے ٹیس اُٹھی لیکن میں نے بھی آخری قطرہ تک نکالنے کا تہیہ کیا ہواتھا۔ نزدیک کھڑے فوجی میری حرکت دیکھ کر بلند آواز میں قہقے لگانے لگے جبکہ دور کھڑا ایک فوجی میری اُس حرکت کو پہاڑ کی فتح سمجھ کر پیچھے کھڑے ساتھیوں کی طرف منہ کر کے نعرہ تکبیر بلند کرنے لگا جس کے جواب میں فضا اللہ اکبر کی صدا سے گونجنے لگی۔میں نعرہ باز کی آواز سے گڑبڑا کر پینٹ اوپر چڑھا کر نیچے اُتر تے ہوئے بے وقوف نعرہ باز کو منع کرنے لگا کہ کیوں بے ہودہ حرکت پر مقدس نعرے لگا رہا ہے۔ حقیقت کا علم ہونے پرسارے نعرہ باز کھسیانے ہو کر ہنسنے لگے اور اگلے کئی دن تک میرے یونٹ کے سب لوگ اُس واقعے کو یاد کر کے ایک دوسرے کا مذاق اُڑاتے رہے۔ “
عابد مارکیٹ میں گیس اپلائنسز کے شو روم کے باہر بیٹھا رُک رُک کر چلتی گاڑیوں کے دھویں میں اپنے سگریٹ کے دھویں کو ملانے میں مصروف کب اُس سیکیورٹی گارڈ کی باتوں میں اُلجھا پتا ہی نہیں چلا۔ اُس دن سے پہلے میں نے اُسے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ سیکیورٹی کمپنی نے شائد پھر سکیورٹی گارڈ کو تبدیل کر دیا تھا۔ہر تین چار مہینے بعد تبدیل ہونے والا سیکیورٹی گارڈ میری کمپنی کا ملازم نہیں تھا بلکہ شوروم کے اوپر واقع ایک اور دفتر کا ملازم تھا۔ لیکن لگتا یوں تھا جیسے ہمارے شوروم کی حفاظت کے لئے بیٹھا ہو۔ آدمی باتوں کا دھنی لگ رہا تھا اِسی لئے تو ڈیوٹی کے پہلے دن اپنے اردگرد چار افراد کا جم گھٹا لگائے ہوئے تھا جیسے کافی عرصے سے ڈیوٹی کر رہا ہو۔اردگرد کی دوکانوں کے دو لوڈر اور دو پک اپ ڈرائیور اتنے انہماک سے اُس کی باتیں سُن رہے تھے جیسے سردیوں کی رات میں بچے رضائی میں اپنی دادی کو گھیرا ڈالے ہوں۔ میرا دھیان شاید اُس کی طرف نہ جاتا لیکن جیسے کچھ دیر پہلے اُس نے میرے لئے کُرسی کا انتظام کیا تھا، میرا اُس کی طرف دھیان جانا ایک قدرتی امر تھا۔کرسی پر بیٹھتے ہی ذہن میں گیزر، اوون، کچن ہُڈ اورکُکنگ رینجوں کے سیلز اور کولیکشن ٹارگٹ دماغ میں کلبلانے لگے۔ سگریٹ کا دھواں سفید سلائیڈ کی طرح نظروں کے سامنے تن گیا جس پر سیلز اور کولیکشن کے کالے کالے اعدادو شماردھیرے دھیرے بننے مٹنے لگے۔ اُس سلائیڈ کے چاروں کونوں پر وہ چار چہرے بھی نمایاں تھے جنھیں پچھلے چار مہینوں میں کمپنی نے فارغ کیا تھا۔ نوکری سے برطرفی کے بعد چاروں فارغ ہی گھوم رہے تھے۔ اُن کے بڑے کے طور پر اُن کے مالی مسائل کا دباؤ بھی کسی حد تک مجھ پر آگیا تھا، اُن کے لئے نوکریوں کا انتظام بھی جلد از جلد کرنا تھا ورنہ اُنھو ں نے کام کے قابل نہیں رہنا تھا۔ اُن میں سے ایک بے روزگاری کی فراغت کے سبب مولویوں کے ساتھ اسلام آباد میں دھرنہ دینے کی پاداش میں پولیس سے سر بھی پھڑوا آیا تھا۔جبکہ دوسرے کے ذہن پر کشمیر،فلسطین، افغانستان، دجال، قیامت اور جوج ماجوج نے کا ٹھی ڈال رکھی تھی۔ معمول کے لگے بندھے خیالوں میں ذہن اُلجھا ہوا تھا کہ ناجانے کب میرا دھیان سگریٹ کے دھویئں کی سلائیڈ سے ہٹ کر سیکیورٹی گارڈ کے پیشاب کے دھوئیں میں الجھ گیا۔
“چاچا وہاں ٹینک بھی لے کر گئے تھے۔”
“لو جی کھوتا ای کھو وچ پا دِتا سو۔ میں اونچے اونچے پہاڑوں اور برف کا ذکر کر رہا ہوں اور یہ ٹینک کی فرمائش کر رہا ہے۔ بیوقوفا کارگل میں اونچے اونچے پہاڑ ہیں۔۔۔۔ برف پوش پہاڑ۔ جب ہم پہاڑچڑھ رہے تھے تو درجہ حرارت منفی بیس تھا۔”
منفی بیس کا ذکر جس انداز میں اُس نے کیا تھا مجھے اپنی ڑیڑھ کی ہڈی میں سنسنا ہٹ سی محسوس ہوئی۔اس سے پہلے کہ مزید بات آگے بڑھتی اچانک سامنے والی دوکان کا مالک آیا اور گالیاں بکتا ہوا اپنے لووڈر کو ساتھ لے گیا۔ پک اپ ڈرائیور کے موبائل کی گھنٹی بجی اور
وہ بھی خوشی خوشی کسی فریج کو ٹھکانے لگانے کے لئے نکل گیا۔ محفل کا سحر ٹوٹا تو باقی دو بھی وہاں سے کھسک گئے۔ سیکیوڑٹی گارڈ نے میری
طرف دیکھا اور پھر گن سیدھی کر کے دور آسمانوں میں دیکھنے لگا جیسے اُس کے سامنے کسی پہاڑ کی چوٹی ہو۔ میں سگریٹ کے دھویں کی سلائیڈپر ایک بار پھر سے ہندسوں کو تلاش کرنے لگا۔ لیکن کارگل کے ذکر کے بعد سب کچھ پیچھے رہ گیا اور نظروں کے سامنے بھتیجے کا ہنستا کھیلتا چہرہ اُبھر آیا جو یکدم گھر سے غائب ہو گیا تھا۔ جس کے بارے تھوڑی سی تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ کچھ جہادیوں کے ساتھ گوریلا جنگ کی ٹریننگ لینے شمالی علاقاجات چلا گیا ہے۔ میں اور بھائی جان ضیا کی تلاش میں شمالی علاقوں میں مجاہدوں کے درجنوں ٹریننگ کیمپوں کی خاک چھاننے کے بعد کارگل کی چوٹیوں کی بیس تک جا پہنچے۔ عجیب زمانہ تھا کہ اچانک ہی کسی بھی محلے سے دو تین لڑکے اکٹھے غائب ہو جاتے اور ماں باپ باؤلے ہو کر جہادی تنظیموں کے دفتروں میں خجل خراب ہونے لگتے۔ باپ عام طور پرمولویوں کی جنت کی بشارت، شہادت کا اجر، نیکیوں کے پہاڑ اور حوروں والی باتوں سے بہل کر اپنے گھروں میں کوئی تصوراتی سرور لے کر آجاتے لیکن ماؤں کو کیسے قرار آئے کہ زندگی بھر کی محبت اور محنت کوئی اور لے اُڑے۔ میں نے اور بھائی جان نے کارگل کی چوٹیوں کی طرف جانے کی بڑی کوشش کی لیکن فوجیوں کے آگے ہماری ایک نہ چلی۔ اُن کے پاس ہر بات کا ایک ہی جواب تھاکہ ہمارا بچہ اوپر نہیں لڑ رہا۔ اُن دنوں اخبار اور ٹی وی یہی کہہ رہے تھے کہ کارگل کی چوٹیوں پر مجاہدوں کا قبضہ تھا۔ ہم کہتے کہ اوپر مجاہد لڑ رہے ہیں اور اُن کا آگے سے سیدھا جواب ہوتا کہ اوپر کوئی مجاہد نہیں۔ہم نے واپس آتے ہوئے بھی درجنوں ٹریننگ کیمپ کھنگالے لیکن ضیا کہیں بھی نہیں ملا۔پہاڑی علاقے میں جہاد منڈی لگی ہوئی تھی۔ سڑکوں پر ہر چند کلومیٹر کے فاصلے پر کسی جہادی تنظیم کے ٹریننگ کیمپ کا نام لکھا ہوتا۔ سارا راستہ میں بھائی جان کو سمجھاتا رہا کہ ضیا کو کچھ نہیں ہو گا وہ خیر وعافیت سے گھر پہنچ جائیگا۔ لیکن اُنھیں کسی پل قرار نہیں تھا بلکہ وہ تو اُس وقت کو کوستے تھے جب وہ بچوں کو زبردستی اپنے ساتھ مسجد لے کر جا یا کرتے تھے۔ اُن پر ایک عجیب ہیجانی کیفیت طاری تھی، راستے میں جب بھی نماز پرھنے کے لئے گاڑی رکواتے تو ایک ہی بات کہتے۔ “بچوں کو گھروں میں نماز پڑھوا لو مسجدوں کا کوئی اعتبار نہیں رہا کہ کب کوئی مولوی نماز کی عار میں بچوں کو جہاد کے لیے تیار کر دے۔بلکہ وہ تو اپنے چہرے کو بھی کئی بار یہ کہہ کر پیٹتے کہ انھوں نے بچوں کے نام رکھنے کے معاملے میں بھی غلطی کی تھی۔جب بیٹوں کے نام فیصل،قذافی، ضیا اور پوتے کا نام اسامہ رکھا ہو تو قیمت چکانی پڑتی ہے۔ اُنیس سو ننانوے سے لے کر دوہزار تین تک جس اذیت سے بھائی جان اور بھابھی نے ضیا کا انتظار کیا وہ پورے خاندان کے لئے انتہائی تکلیف دہ تھا۔ اس بے چینی اور تکلیف سے نجات اُس وقت ملی جب افغانستان سے واپس آئے ضیا کے دوست نے تورا بورا میں امریکی بمباری سے اُس کے مارے جانے کی تصدیق کی۔ ضیا کیا مرا بھائی جان بھی اُسی دن مر گئے، آخری وقت تک خودکو ہی دوشی قرار دیتے رہے۔ ضیا اور بھائی جان کی یاد آئی تو آنکھوں کا بھر آنا لازم تھا۔ آنسوؤں سے اُمڈتاسیلاب روکنے کے لئے میں نے سوچنا بند کیا تو عابد مارکیٹ کا شور ایک بار پھر کانوں میں بھرنے لگا اور نظروں کے سامنے ایک بار پھر وہی رُکی ہوئی ٹریفک تھی۔ سگریٹ ختم ہونے پر میں ناجانے کب کا پھینک چکا تھا۔ اردگرد گرے سگریٹ کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن پتا نہیں اوپر نیچے ہوتی کیفیات کے کس مقام پر اُسے پھینکا تھا کہ نظر ہی نہیں آرہا تھا۔ گمشدہ سگریٹ کیتلاش کے ساتھ دماغ کے کسی گوشے میں ڈیلروں کے آرڈر اور اُن سے پیسوں کے تقاضے ایک بار پھر ڈیرے ڈالنے لگے۔ نوکری بھی بچا کر رکھنی تھی، مالکان پر کچھ ایسا جال بھی پھینکنا تھا کہ نوکری چلتی رہے۔ کیا میں واقعی بوڑھا ہوگیا تھا کہ اب مجھے اُٹھاکر پھینکنے کی تیاری کی جانے لگی تھی۔بڑھتی عمر میں موت کے خوف سے اوپر نوکری جانے کا خوف دل میں بڑھتا جا رہا تھا۔ ابھی توبچوں کو بھی اچھی نوکریوں پر سیٹ کروانا تھا۔ بچوں کی نوکریوں کا خیال آیا توپہلے بڑے والے کا خیال آیا کہ اُسے نوکری کون دے گا۔ پہلے لڑکیوں کے پیچھے بھاگا پھرتا تھا اب داڑھی رکھ کر ہاتھ میں لٹھ پکڑے سارے گھر والوں کے پیچھے گناہ ثواب کا کھاتہ پکڑے بھاگا پھرتا ہے۔چھوٹا والا ہاتھ میں گٹار پکڑے جھومتا ہے۔ لیکن عجیب ماڈرن انسان ہے کہ بہن کی نوکری چھڑوانے میں بڑے والے کے ساتھ مل کر دلائل دینے میں بھی پیش پیش رہتاہے۔ پورے گھر کی سوچ تتر بتر تھی ہر وقت جھگڑا،ہر وقت فساد۔ لیکن اس سب لڑائی کے اندر میں کہاں کھڑا تھا کچھ علم نہیں ہو رہا۔ میں لاچار ہوں، بے بس ہوں۔ سوچوں کے کنویں میں ڈُبکیاں لگاتے دل گھبرانے لگا تویکدم کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ پاس ہی کرسی پر بیٹھا سیکیورٹی گارڈ مخاطب ہوا۔
“صاحب جی کچھ گھبرائے ہوئے لگ رہے ہیں، آپ کا تو پسینہ چھوٹ رہا ہے۔”
اُس کی بات کا جواب دیئے بغیر کھسیانی ہنسی ہونٹوں پر سجائے شوروم کے اندر آگیا۔ ٹیمپل روڈ کا سارا شور شیشے کے دروازے کے پیچھے رک گیا لیکن اندر کا شور پھر کہیں بہت اندر بُکل مار کر بیٹھ گیا۔
اُس دن کے بعد تو یہ معمول بن گیا کہ میں باہر سگریٹ پینے آتا اور گارڈ اپنے پاس پڑی اضافی کرسی کھینچ کر مجھے دے دیتا۔ اور خود لوگوں کو کارگل کی جنگ کے قصے سنانے میں مگن ہو جاتا۔ اسی وجہ سے اُس کواردگرد کے لوڈر اور ڈرائیور چا چا کارگل کہنے لگے جبکہ اُس سے بڑی عمر کے لوگ صرف کارگل کہنے پر اکتفا کئے ہوئے تھے۔اُس کی باتیں سنتے ہوئے شدید گرمی میں بھی جب لوگ کارگل کی ٹھنڈ کے بیان پر پہنچتے تو اُن کے جسم خود بخود سکڑنے کا تاثر دینے لگتے۔پہاڑوں پر آگ جلانا، پھر اُس آگ کی روشنی اور دھویں کو انڈین فوجیوں کی نگاہ سے چھپانے کے طریقے بیان کرتے ہوئے کارگل کے چہرے پر عجیب شرارت بھرے تاثرات اُبھر آتے۔ کارگل کا قصہ بیان کرنے کا اُسکا دو دہائیوں کا تجربہ سننے والوں پر سحر طاری کر دیتا۔ انڈین فوج کے ساتھ لڑائی سے پہلے،موسم سرما کے ساتھ ہونے والی اپنے ساتھیوں کی دو بدو جنگ کے بیان میں وہ کسی شیعہ ذاکر کی میدان کربلا میں گرمی کی شدت کے بیان کو آسانی سے پچھاڑ سکتا تھا ۔ موٹی موٹی جیکٹوں، ٹینٹوں، کمبلوں اور ٹھنڈ کے خلاف مزاحمت میں مدد کرنے والی گرم خوراکوں کا ذکر وہ اتنی تفصیل کے ساتھ کرتا کہ آنکھوں کے آگے فلم چلنے کا احساس ہوتا۔ جنگ کا انتظار اُس کے قصے کا مرکزی نقطہ تھا جس میں اُس کے سارے ہی ساتھی شہادت کی رو رو کر دعائیں مانگا کرتے۔ وہ تو افسروں کے حکم نے اُسکے ساتھیوں کے پیروں میں بیڑیاں ڈالی ہوئیں تھی ورنہ وہ تو پہاڑوں کو پھلانگتے ہوئے دشمنوں کو کب کا روند دیتے۔ کارگل کے ہر دوسرے جملے میں اُسکا دشمن صرف مکار اور بزدل تھا جس کا بہادری کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، جو دور کہیں بیٹھا اُس کے ساتھیوں کی ہیبت سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ میرے لئے یہ بڑی حیرت کی بات تھی کہ وہ جنگ کے میدان سے ہار کر آیا تھا لیکن اُس کا انداز کسی فاتح سے کم نہیں تھا۔ کارگل کے بیان کے مطابق وہ تو سیاستدانوں کی غداری کے سبب پہاڑوں سے واپس آئے تھے۔ اُس کا بیان میرے لئے حیرت انگیز تھا۔ ایک بار اُس سے اس سلسلے میں بات ہوئی تو احساس ہوا کہ وہ اپنے طور پر سچ ہی بول رہا تھا۔ بات کرتے ہوئے اُس کی آنکھوں کا رنگ یکسر بدل گیا،چہر ہ مکمل سپاٹ ہو گیا جیسے کسی نے ہیپناٹائز کیا ہو۔
کارگل کی عجیب و غریب منطق اور حقیقت سے متصادم باتوں کی وجہ سے میں ہر وقت اُس کی ٹوہ میں رہنے لگا،اُس کی حرکات و سکنات سے مجھے احساس ہوا کہ وہ ایک پیچیدہ شخصیت کا مالک تھا۔ کچھ ہی دن بعد یہ احساس ہونے لگا کہ عام انسان کی نسبت کارگل کے اندر جنس اور پیسے کا لالچ بہت زیادہ تھا شاید اسی وجہ سے وہ خودداری سے بھی محروم ہو چکا تھا۔ پیسے کے چکر میں اُس نے خود بخود وہ ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں جن کا اُس کے کام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ میرے آنے سے پہلے وہ میری گاڑی کے لئے جگہ بچا کر رکھتا، گاڑیوں کے بیچ تنگ جگہ پر گاڑی لگوانے میں مدد کرتا، چھُٹی کے وقت گاڑی ریورس کروانے میں بھی مدد کرتا۔ وہ ہماری کمپنی کا ملازم نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ یہ سب کچھ یوں کرتا جیسے میرا ذاتی ملازم ہو۔ شروع میں مجھے یوں لگا کہ یہ سب کچھ میری زیادہ عُمر کی تکریم میں کرتا ہے لیکن جب میں نے اُسے شام کے وقت ساتھ والے بنک اور اپنے شو روم کے سامنے خالی جگہ پر بیس تیس روپے لے کر گاڑیاں پارک کرواتے اور نکلواتے دیکھا تو سمجھ گیا کہ میری تکریم کے پیچھے پیسہ ہی محرک ہے۔ گاڑیوں کی پارکنگ سے وہ چار پانچ سو کی دیہاڑی کھڑی کر ہی لیتا تھا۔ اُس کی کمرشل ایکٹویٹی دیکھ کر اپنی عزت و تکریم والا نشہ اُترا تو میں بھی ہر ماہ باقاعدگی سے کارگل کو ہزار کا نوٹ دینے لگا۔ کبھی کبھار ہفتے میں بھی ایک دو بار سو دو سو روپیہ پکڑا دیتا۔ گاڑیوں کی پارکنگ کے علاوہ مارکیٹ میں مانگنے والی عورتیں بھی کارگل کی دلچسپی کا سامان تھیں۔اکثر شام کو جب میں لیٹ ہو جاتا تو کارگل شوروم کے ساتھ اوپر جانے والی سیڑھیوں میں کسی عورت کو لئے کھڑا ہوتا۔مجھے یا کسی اور کو دیکھ کر بھی وہ کسی طرح کی جھجھک کا شکار نہ ہوتا۔ ایک بار خود ہی اپنے پاس کھڑی ہونے والی عورتوں کے بارے بتاتے ہوئے کہنے لگا کہ لاہوری سسٹم اچھا ہے کہ بیبیوں کو دینے کے لئے اگر پورے جسم کے پیسے نہ ہوں تو مختلف حصے تھوڑے کرائے پر بھی مل جاتے ہیں۔ دو تین مہینے بعد گھر جانے کی وجہ سے کارگل کی جنسی معاملہ بندی کافی حد سمجھ بھی آتی تھی۔ بچوں کی اُسے کوئی ہوش نہیں تھی کہ کون کیا کر رہا تھا، اُسے شہر میں بس پیسے کمانے تھے اور پیٹ بھرنا تھا۔ بعض اوقات اُس پر رحم آتا کہ جوانی جنگوں اور سرحدوں پر گزار کر اب بھی وہ ایک مجبور و مقہور زندگی بسر کر رہا تھا۔
کارگل کی زندگی کا یہ چلن ایسے ہی چلتا رہتا لیکن تبدیلی اُس وقت آئی جب ساتھ والے بنک میں ایک عورت نے مینیجر کا چارج سنبھال لیا۔عام طور پر ایسی تبدیلیوں کا اردگرد کسی کو پتا نہیں چلتا لیکن اُس عورت کے آنے کا کھڑاک پوری عابد مارکیٹ میں ہوا اور سب سے پہلے اُس نے مجھے ہی نشانہ بنایا۔ ایک دن شوروم کے آگے لووڈر گاڑی کھڑی ہونے کی وجہ سے میں نے گاڑی بنک کے آگے لگا دی اور خود آکر اپنے آفس میں بیٹھ گیا کہ اتنے میں سیلز مین بھاگتا ہوا آیا اور بتانے لگا کہ ساتھ والی بنک مینجر نے گاڑی بنک کے آگے کھڑی کرنے پر ہنگامہ کھڑا کیا ہوا ہے۔مجھے سمجھ نہ آئی کہ اس میں ہنگامہ کھڑا کرنے والی کیا بات ہے۔ گاڑی وہاں سے ہٹا کر اپنے شوروم کے آگے کھڑی کر دیتا ہوں۔ یہی سوچتا ہوا میں باہر آیا تو خاتون مینیجر سڑک پر کھڑی چیخ چِلا رہی تھی۔ میرے باہر نکلتے ہی کارگل نے اُس عورت سے میرا تعارف یہ کہہ کر کروایا کہ ان صاحب کی گاڑی ہے۔ یہ سننا تھا کہ میری بیٹی کی عمر کی اُس نوجوان عورت نے تقریبا چِلاتے ہوئے میری عمر کا لحاظ کئے بغیر مجھے اپنی حدود میں رہنے کا درس دینے لگی۔ مارکیٹ کے لوگ اکٹھے ہوکر تماشہ دیکھنے لگے۔ اُس کے ایک دو جملوں کے بعد مجھے توقع تھی کہ اُس کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا لیکن وہ مجھ پر چڑھتی ہی چلی آرہی تھی۔ میں نے اُسے بس اتنا ہی کہا کہ بیٹی اس چھوٹے سے مسئلے پر اتنا طیش میں آنے کی کیا ضرورت ہے میں ابھی گاڑی بنک کے سامنے سے ہٹا دیتا ہوں لیکن میرے بیٹی کہنے پر وہ مزید طیش میں آ گئی۔
“میں کسی ایرے غیرے بلڈی سویلین کی بیٹی نہیں، میں بریگیڈئیر کی بیٹی ہوں، تمھاری ہمت کیسے ہوئی مجھے بیٹی کہنے کی۔”
اتنا سن کر مجھے بھی طیش آگیا اور ایک دو سخت جملے میرے منہ سے بھی نکل گئے۔ بس یہی غلطی ہو گئی۔ جسکے بعد مجھے نہیں معلوم کہ اُس نے مجھے کون کون سی گالی کتنی بار بَکی۔ کبھی بریگیڈئیر باپ کی دھمکی، کبھی پوری فوج کی دھمکی، کبھی پولیس کی دھمکی اور کبھی غائب کروا دینے کی دھمکی۔ ان ساری دھمکیوں میں وہ اپنی اور میری عمر کے فرق کو بالکل خاطر میں نہیں لا رہی تھی۔ ایک دو بار اُس کے کولیگ نے اُسے سمجھابجھا کر بنکمیں لے جانے کی کوشش کی لیکن وہ اُس پر بھی برس پڑی۔ اُسکی ساری بک بک کے دوران اپنی گاڑی کو بنک کے آگے سے ہٹا کر اپنے شوروم کے آگے کھڑا کیا اور اُسے چیختا چلاتا چھوڑ کر اندر آگیا۔ لیکن اگلے تین سے چار گھنٹوں میں بریگیڈئیر کی بیٹی نے ثابت کیا کہ وہ صرف دھمکا ہی نہیں رہی تھی۔ اُس نے بنک میں جانے کہ بعد اپنی سب باتوں پر عمل بھی کیا۔ پہلے پولیس کی گاڑی آئی اُن کو دے دلا کر فارغ کیا تو تھوڑی دیر بعد انجان لوگوں گاڑی آگئی جنھوں نے مجھے بنک میں لے جا کر باقاعدہ بریگیڈیر کی بیٹی سے معافی منگوائی۔ بنک سے نکلتے ہوئے میں جس قدر شرمندہ تھا وہ بیان سے باہر تھا۔ بنک میں وہ جس طرح کا رویہ اختیار کر رہی تھی وہ کسی نفسیاتی مریض کا ہی ہو سکتا تھا لیکن پتا نہیں کیسے ایک بنک مینیجر کی سیٹ پر آبیٹھی تھی۔طعنوں کی بارش میں اُس نے اپنے دو جنرل رشتہ داروں کے ساتھ باہر کے ملکوں میں موجود اپنے کزنوں کااحوال بھی بتا دیا۔ بار بار اپنی بنک کی نوکری کو بھی حقیر گردانتے ہوئے کہتی رہی کہ کیرئیر کا آغاز بھی تو کہیں نا کہیں سے کرنا تھا۔اُس کا اصل ٹارگٹ تو بنک کی پریزیڈنٹ بننا تھا، جس کا اعلان اُس نے اپنے سٹاف کے سامنے کئی بار کیا۔ اس واقعے کے اگلے دو تین دن بعد تک مارکیٹ کے لوگ آکر مجھ سے اُس ہتک آمیز واقعہ پر افسوس کرتے رہے۔ میرا خیال تھا کہ اس واقعے کے بعد مارکیٹ کے لوگ اُس بنک کے ساتھ کام کم کر دیں گے لیکن وہ جس دکان میں بھی جاتی اُن کا اکاونٹ اپنی برانچ میں کھلوا ئے بِنا نہ نکلتی۔ جب کبھی میں شوروم کے باہر بیٹھا اُسے نظر آتا وہ ایسے غصے سے گھورتی ہوئی جاتی جیسے میں نے اُس کی بے عزتی کی ہو۔ اب ہونے یہ لگا کہ میں جب بھی سگریٹ پینے باہر آتا تو کارگل ہر بار یہی کہتا کہ صاحبوں کے بچے غصے کے تھوڑے تیز ہوتے ہیں لیکن دل کے بڑے اچھے ہوتے ہیں۔ میں بھی آگے سے سر ہلا دیتا، اس کے علاوہ اور حل ہی کیا تھا۔ بات مجھ تک ہی رک جاتی تو خیر تھی اُس نے میری طرح تین چار اور افراد کو بھی کھڑکادیا۔ بریگیڈئیر کی بیٹی کا طریقہ کار بڑا سیدھا سادا تھا وہ کسی کی دکان یا آفس کے اندر گھُس کر کا روائی نہیں ڈالتی تھی بلکہ غنڈی رن کی طرح سڑک پر کھڑے ہو کر گالیاں بکتی۔میں تو نادانستگی میں اُسے جواب دے بیٹھا تھا باقی کسی نے اُس کے آگے چوں تک کرنے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔ بریگیڈئیر کی بیٹی کو ایک برتری یہ بھی تھی کہ جیسے ہی وہ کہیں کاروائی ڈالنے جاتی تو بنک کے گارڈ سمیت اردگرد کی دکانوں اور بنکوں کے گارڈ نیلی وردیوں میں ملبوس بندوقیں پکڑے اُس کے اردگرد کھڑے ہوجاتے۔ایک بار میں نے کارگل سے پوچھا بھی کہ وہ کیوں مینیجر کے جھگڑے میں کود پڑتا ہے تو اُس نے سیدھا سادا جواب دیا۔
” اچھا نہیں لگے گا کہ کوئی صاحبوں کی بیٹی کے ساتھ زیادتی کرے۔ “
کارگل کو بہتیرا سمجھایا کہ بریگیڈیر کی بیٹی جہاں باپ کی پوزیشن سے طاقت لیتی ہے وہیں تم لوگوں کی نیلی وردیوں کا بھی اُسے آسرا ہوتا ہے۔ بات اگر اُس کی زبانی بدکلامی حد تک رہتی تب بھی کوئی بات نہیں تھی، وہ سرِ بازار ایک ڈرائیور اور لوڈر کو تھپڑ تک مار چکی تھی۔ ایسی پڑھی لکھی بدمعاش عورت میں نے زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی۔ سب کچھ دیکھنے سمجھنے کے باوجود کارگل اپنے خیالات میں ٹَس سے مَس نہیں ہوا۔ صرف وہی نہیں سارے کے سارے اردگرد کے سیکیورٹی گارڈ خاکی وردی سے سیکیورٹی گارڈ والی نیلی وردی میں آچکے تھے لیکن وہ اپنا رشتہ پہلی والی وردی سے توڑ نہیں سکے تھے۔ سب کی حالت پتلی تھی لیکن اُن میں سے کوئی بھی اپنی اس حالت کو سمجھنے کے قابل نہیں تھا۔ سب کی ایک جیسی تنخواہ، ایک جیسی خوشیاں، ایک جیسے غم، ایک جیسی خاندان سے دوری، ایک سی جنسی ناآسودگی، ایک جیسا سوچنے کا انداز، ایک جیسا سیاسی شعور، ایک جیسی نفرت، ایک جیسی مذہبی عقیدت، جیسے کسی نے روبوٹ بنا کر بنکوں، دوکانوں اور دفتروں کے باہر چھوڑ دیے ہوں۔ مارکیٹ میں جب بھی خیرات کا لنگر بٹتا تو لائن میں نیلا رنگ تمام رنگوں پر حاوی ہوتا۔ خیرات کی دیگیں دیکھ کر کارگل کا چہرہ عجیب طرح کی تمانیت سے چمک اُٹھتا۔کارگل کو سمجھاسمجھا کر جب میں مایوس ہو چکا تو ایک دن وہ ہوا جس نے کارگل کی کایا کلپ کر دی۔ہمیشہ کی طرح میں شام سات بجے شوروم کے باہر بیٹھا سگریٹ پھونک رہا تھا۔ کارگل اپنی روٹین کے مطابق شو روم اور بنک کے آگے گاڑیاں پارک کروا کر جیب خرچ اکٹھا کر رہا تھا۔ بیچارے کا خیال تھاکہ بریگیڈیر کی بیٹی چھٹی کر کے جا چکی ہے کیونکہ بنک کے باہر اُس کی گاڑی بھی نہیں کھڑی تھی۔ کارگل کی قسمت ہاری تھی کہ وہ بنک سے عین اُس وقت نکلی بھی جب بنک کے آگے کھڑی گاڑی نکلواتے ہوئے نذرانہ لے رہا تھا۔ بس پھر کیا تھا بیچارے کی بیچ سڑک شامت آگئی۔بریگیڈئیر کی بیٹی کے منہ سے گالیاں اپنی پوری روانی پر تھیں۔ کارگل بریگیڈئیر کی بیٹی کے آگے یوں سر جھکائے کھڑا تھا جیسے اُس عورت کو گالیاں بکنے کا خدائی حق ہو۔ لیکن اُس دن بات گالیوں تک ہی نہیں رکی، اُس نے کارگل کے منہ پر زور کا تھپڑ بھی جَڑ دیا۔ کارگل کے کاندھے پر لٹکی بندوق دیکھ کر مجھے ایک پل کے لئے لگا کہ کہیں وہ بریگیڈئیر کی بیٹی کو شوٹ ہی ناکردے۔ لیکن اُس نے کوئی خاص رد عمل نہیں دیا اور تھپڑ کھا کر سکون سے اپنی کرسی پر آکر بیٹھ گیا۔ وہ کارگل جو اب تک درجنوں انڈین فوجیوں کو جہنم واصل کرنے کے قصے عابد مارکیٹ کے لووڈروں اور ڈرائیورں کو سنا چکا تھا، بریگیڈئیر کی بیٹی کے ہاتھوں تذلیل کروا کر کرسی پر شانتی سے بیٹھ گیا۔اردگرد کی دکانوں کے لوگ کارگل کے گرد گھیرا ڈال کر اُسے دلاسہ دینے لگے۔ وہ بے بس لوگوں کا اکٹھ تھا جن کے چہروں پر بے بسی کا راج تھا۔
اگلے دن سے ایک ہفتے کے لئے کارگل کی رات کی ڈیوٹی شروع ہو گئی۔ اس لئے میں بس اُسے شو روم سے نکلتے ہوئے ہی دیکھتا۔ اب نا تو لوگوں نے اُس کے گرد گھیراڈالا ہوتا اور نا ہی وہ جھوم جھوم کر لوگوں پر اپنی بہادری کی دھاک جما رہا ہوتا۔اُس کا رویہ تھپڑ کے بعد پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔ اب نا تو وہ میری گاڑی نکلوانے میں مدد کرتا، نا ہی اُس کی نظروں میں سو دو سو روپے کا تقاضا ہو تا۔ کارگل کے پہاڑوں کے قِصے بھی دم توڑ گئے۔ ہفتہ نائٹ ڈیوٹی کے بعد جب وہ دن کی ڈیوٹی پر آیا تو کارگل کی جنگ کے قصوں میں تبدیلی آ چکی تھی۔ وہ قصہ جو پہلے کارگل کی چوٹیاں چڑھنے اور انڈیا کی طرف منہ کر کے پیشاب کرنے سے شروع ہوتا تھا اب اُس کا آغاز یوں ہوتا کہ فلاں افسر کا
بیٹا جو اُس کا یونٹ انچارج تھا، جنگ پر جانے سے پہلے ہی ٹرانسفر کر دیا گیا۔ اُس کی جگہ ایسا افسر آیا جس کے باپ دادا فوج کے کسی بڑے عہدے پر نہیں تھا۔ موٹے کمبلوں کی بجائے اب ایندھن کی کمی کا ذکر کرنے لگا۔کارگل پہلے اکثر اُن انڈین فوجیوں کے دستے کا ذکر کرتا تھا جو سردیاں ختم ہونے پر کارگل کی چوٹیوں پرواپس آئے تو پاکستانی فوجیوں کو دیکھ کر حیران رہ گیے۔ بیچاروں کو اپنی بھری بندوقوں کو بھی سیدھا کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ اب وہ اپنے اُن ساتھیوں کا ذکر کرتا جن کی بندوقیں تو دشمن کی طرف سیدھی تھیں لیکن اُن میں گولی کوئی نہیں تھی۔ کارگل جنگ کے آغاز پر وہ فوجی جو دشمن پر حملہ کرنے کے لئے بے قابو ہوئے جاتے تھے اور اُن کو نیچے اترنے سے روکنے کے لئے پکڑنا پڑتا تھا۔ اب وہ واقعہ یوں تھا کہ کچھ سپاہیوں میں جوش ویسا ہی تھا لیکن اب اُنھیں پکڑ پکڑ کر گھسیٹ کر نیچے بیس پر لا نا پڑ رہا تھا۔پہلے انڈین فوجیوں کی لاشوں کے گرد جشن کی بات ہوتی تھی۔ اب اپنے فوجیوں کی لاشیں انڈیا سے واپس نہ لینے کا گِلا تھا۔ پہلے اونچے پہاڑوں کا ذکر تھا اور اب کٹے پھٹے پہاڑوں کی بات تھی جنھیں بوفورس توپوں نے روئی کی طرح دُھنک کر رکھ دیا تھا۔اب کارگل اور اُس کے ساتھیوں کے لئے پہاڑیوں پر نہ تو خوراک تھی، نہ ہی پانی۔ کارگل کی ایسی کایا کلپ نے جہاں مجھے حیران کیا وہیں باقی لوگ بھی حیران تھے۔ یہاں تک کہ کارگل کا سودا کرنے والابھی اب مظلوم تھا۔ ہندو فوجی پہلے بزدل اور مکار ہوا کرتے تھے اب وہ بھی بہادر ہوگئے تھے۔کارگل نے بیس سال بعد ایک تھپڑ لگنے پڑاپنا سچ ڈھونڈ لیا تھا۔ شاید ایسے ہی کڑوڑوں لوگوں کے سچ اپنے اپنے منہ کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ لیکن یہ بات طے تھی کہ کارگل کے گرد لگنے والی منڈلی میں اب وہ پہلے والا جوش و خروش نہیں رہا تھا۔ ایک دن ایسے ہی شوروم کے باہر بیٹھا میں کارگل سے مزید سچ کُرید رہا تھا کہ ایک دم کچھ ٹکرانے کی آواز آئی۔ بریگیڈئیر کی بیٹی کی گاڑی لوڈر گاڑی کے ساتھ ٹکرا چکی تھی۔ غصے سے لال سرخ وہ اپنی گاڑی سے اُتر کر ڈرائیور پر چڑھ دوڑی۔ جس طرح پہلے اُس کے گرد مجمعلگتا تھا اس بار ویسی بات نہیں تھی بس کوئی اِکا دُکا موٹر سائیکل سوار تھوڑی دیر کے لئے رُک کر گزر جاتا۔یہاں تک کہ بنک کا سیکیوڑٹی گارڈ بھی اپنی مینیجر کے پاس آنے کی بجائے بنک کے دروازے کے آگے کھڑا رہا۔ ادھر کارگل بھی اپنی کرسی پر جما رہا۔اردگرد کی دکانوں کے سیلز مینوں کا چسکا لینے اور عورت سے ہمدردی والا کیڑا بھی مر چکا تھا۔اردگرد سے لا پرواہ بریگیڈئر کی بیٹی ڈرائیور کو گلیاں بکتی چلی جارہی تھی۔ پہلے تو دل میں خیال آیا کہ میں بھی بیٹھا رہوں لیکن پھرمجھ سے رُکا نہیں گیا اور میں اُس عورت کو مزید بدزبانی سے روکنے کے لئے آگے بڑھنے لگا۔ آگے بڑھتے قدموں کے ساتھ میں دیکھ رہا تھا کہ اردگرد کی دوکانوں کے سیلز مین اپنے اپنے موبائل نکال کر اُس ساری کاروائی کی ویڈیو بنانا شروع ہو چکے تھے جبکہ نیلی وردیوں والے اپنی اپنی دکانوں اور دفتروں کے دروازوں کے سامنے پوری صورتحال سے لا تعلق سے کھڑے تھے۔