بلوچ لانگ مارچ:جدوجہد کی عظیم روایت

Posted by:

|

On:

|

,

(انقلابی سوشلسٹ)

21دسمبر کی رات اسلام آباد میں بلوچ لانگ مارچ کے شرکاء پرریاستی اداروں کی طرف سے بے ہیمانہ تشدد کیاگیا اور خواتین،بزرگوں سمیت بڑی تعداد میں طلباء کو گرفتار کرلیا گیاتھا۔حکومت نے مکمل کوشش کی کہ گرفتار خواتین کو زبردستی کوئٹہ بھیج دیا جائے جس کی بلوچ خواتین نے تمام تر تشدد،دھمکیوں کے باوجودمزاحمت کی۔لانگ مارچ پر تشدد کے خلاف بلوچستان بلکہ دیگر بلوچ علاقوں میں بھی احتجاج اور دھرنے شروع ہوگئے جو پہیہ جام اور شٹرڈوان ہڑتال میں تبدیل ہوگے تھے۔
اسلام آبادمیں لانگ مارچ پر ریاستی دہشت گردی کے خلاف بلوچستان سمیت ملک بھر میں احتجاجات ہوئے۔جن میں تربت، پنجگور، گوادر،خضدار، مستونگ، دالبندین، کوئٹہ، کوہلو،ڈیرہ بگٹی، سبی، رکنی، بارکھان، آواران حب، کراچی، بیلہ، تونسہ، ڈی جی خان، لاہور، بہاولپور،ملتان اوراسلام آباد سمیت کئی اور شہروں میں ہوئے۔
بلوچستان میں اس تشدد نے عوامی جدوجہد کے جذبہ اور جرات میں اضافہ کردیا اور خوف ٹوٹنا شروع ہوگیااور ان علاقوں میں نئی سیاسی حقیقت جنم لے رہی ہے جس سے پہلے سے موجود نام نہاد سیاسی بندوبست لڑکھڑا رہاہے۔اس صورتحال میں عدالت نے رہائی کا حکم دیا اور حکومت نے بھی مذاکرات شروع کردئے ہیں اور اسی لیے جرگے کو بھی استعمال کیا جارہاہے تاکہ اس سیاسی جدوجہد پر قابو پایا جاسکے جو بلوچستان سمیت تمام بلوچ علاقوں میں پھیل چکی ہے۔
اس جدوجہد کا آغازتربت میں سی ٹی ڈی کے زیرحراست بالاچ بلوچ کے بے ہیمانہ قتل سے شروع ہے لیکن یہ عوامی تحریک پچھلے چند سالوں میں مسلسل جنم لینی والی عوامی تحریکوں کا نتیجہ ہے جیسے بلوچ طلباء اور خواتین نے منظم کیا جس میں مختلف شہروں میں بلوچ یکجہتی کمیٹیاں بھی تشکیل پائیں۔اس نے بلوچ قوم میں اس خوف کا خاتمہ کردیا جس کو ریاست نے شدید جبروتشدد،گرفتاریوں،جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ اجسام سے قائم کیا تھا۔حالانکہ بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم پر ان سی ٹی ڈی اہلکاروں کو معطل کرکے تحقیقات شروع کردی گئی ہیں جن پر بالاچ بلوچ کو قتل کرنے کا الزام ہے اور بظاہر لانگ مارچ کا ایک اہم مطالبہ منظور کیا جاچکا ہے لیکن لانگ مارچ کا بنیادی مطالبہ اس وقت جبری گمشدگی کی ریاستی پالیسی کا خاتمہ اور جبری گمشدہ افراد کی بازیابی ہے۔یہ ایک جائزہ مطالبہ ہے جس کی پوری بلوچ قوم حمایت کررہی ہے اور اس کے لیے جدوجہد کررہی ہے جس کی قیادت اس وقت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام میں لانگ مارچ اور اس کی قیادت میں شامل خواتین اور ماہرنگ بلوچ کررہی ہے۔
لانگ مارچ کے ساتھ ریاستی اداروں کے رویہ نے ریاست کی بلوچ قوم کی طرف پالیسی کو واضح کردیا ہے۔پاکستان میں ریاست کا ڈھانچہ اندرونی نوآبادیاتی پر مبنی ہے جس میں بلوچ قوم کو کوئی جمہوری حقوق حاصل نہیں ہے۔
تربت سے شروع ہونے والے اس لانگ مارچ کے حوالے سے ریاست اندازے کی غلطی کرگئی ان کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ مارچ بلوچ قوم میں اتنی بڑی تحریک کو جنم دئے گا جس پر تمام تر تشدد،گرفتاریوں اور پابندیوں کے باوجود قابو نہیں پایا جاسکے گا۔اس لیے انہوں نے اسلام آباد میں لانگ مارچ کے داخلے کو روکنے کے لیے بیہمانہ تشدد کا سہارا لیا جس میں بلوچ خواتین،بچوں اور بزرگ افراد کو گرفتار بھی کرلیا گیا۔اس کے علاوہ تین سو سے زائد طلباء کو گرفتار کرلیا گیا جس میں سے اب تک صرف167طلباء ہی رہا ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ لانگ مارچ پر کریک ڈوان کے دوران مختلف طلباء کو جبری طور پر گمشدہ بھی کردیا گیا ہے۔لانگ مارچ کے شرکاء اس وقت اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے دھرنا دیئے ہوئے ہیں انہوں نے یہ واضح کیا ہے کہ اگر ان طلباء کو رہا نہ کیا گیا یا ان میں سے مزید طلباء کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا تو وہ سخت اقدام پر مجبور ہوجائیں گے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی طرف سے شروع ہونے والا لانگ مارچ اسلام آباد اس امید پر آیا ہے کہ ان کی جدوجہد کے دباؤ میں ریاست اپنی پالیسی کو تبدیل کرنے پر مجبور ہوجائے گئی اور مزید فیک انکاؤنٹرز اور جبری گمشدگیوں کا خاتمہ ہوگا اور سی ٹی ڈی کو غیر فعال بنایا جائے جو اس وقت بلوچ قوم کی نسل کشی کررہا ہے اور بلوچ قوم کو ان کے جمہوری حقوق دیئے جائیں جس میں وہ اپنے مقدر کا خود فیصلہ کرسکیں۔اس حوالے سے لانگ مارچ اپنے مقاصد کے لیے ایک کامیاب جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
لانگ مارچ کو بڑے پیمانے پر مظلوم اقوام کی طرف سے حمایت مل رہی ہے جس میں پی ٹی ایم کے علاوہ دیگر مظلوم اقوام کی تنظیموں بھی شامل ہیں پہلی دفعہ پنجاب میں بھی محدود پیمانے پر لانگ مارچ کو حمایت ملی ہے اور بلوچ قوم کے دکھ اور تکلیف کو محسوس کیا جارہاہے۔پی ٹی ایم،بلوچ یکجہتی کمیٹی اور لیفٹ کی پارٹیوں اور تنظیموں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف بلوچ جدوجہد کی حمایت کرئیں بلکہ ایک متحدہ محاذ کو تشکیل دئے کر اس جدوجہد مزدور طبقہ میں لے جائیں اور اس جمہوری جدوجہد کو پھیلائیں اور ریاست کو مجبور کرئیں کہ وہ بلوچ قوم کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کرئے اور گمشدگیوں اور نسل کشی کا سلسلہ بند کرئے اور بلوچ قوم کو مکمل جمہوری حقوق دیئے جائیں۔