ٹرمپ کی فسطائی اشتعال انگیزی

Posted by:

|

On:

|

لیگ فار دی فیفتھ انٹرنیشنل

ڈونلڈ ٹرمپ کے اشتعال پر فاشسٹوں کے ہجوم کا امریکی دارالحکومت پر حملہ دراصل ایک تنہا مگر شیطانی صدر کا ایک ناکام حربہ تھا جو اس نے اس لئے اختیار کیا تاکہ کانگریس (اور نائب صدر) کو ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے منتخب امریکی صدر جو بائڈن کی حلف برداری ترک کرنے پر مجبور کر سکے۔

انتخابات سے پہلے، دوران، اور بعد ٹرمپ نے اپنے روایتی حمایتیوں کو جذباتی کرنے کے لئے یہ کہا کہ ڈیموکریٹس ان انتخابات کو “چوری” کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور پھر کہا کہ انہوں نے ایسا کر لیا ہے۔ ایک مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ٹرمپ ازخود جیارجیا  کے ریپبلکن بریڈ رافنسپرجر سے التجا کرتا پایا گیا تھا کہ وہ اس ریاست سے فتح کے لئے ٹرمپ کے لئے 11،000 ووٹ “تلاش” کرے۔

لاتعداد ٹوئیٹس کے ذریعہ ٹرمپ نے اپنے حمایتیوں کو 6 جنوری کو بائڈن کو روکنے کی ایک “جنگلی” کوشش کے لئے واشنگٹن آنے پر اکسایا۔ اس دن پھر ٹرمپ نے بذاتِ خود اس ریلی سے خطاب کیا اور اپنے حمایتیوں سے کہا کہ وہ “مضبوط رہیں” اور انہیں مزید اکسایا کہ وہ پینسلوینیا ایونیو پر کانگریس کی عمارت تک جائیں اور ریپبلیکنز کی اس اقلیت کا ساتھ دیں جو جو بائڈن کے الیکشن کی تصدیق کو روکنے میں کوشاں ہیں۔ ٹرمپ کے ذاتی وکیل، روڈی گیولیانی، نے جسمانی لڑائی کی بھی حوصلہ افزائی کی۔

یہ واضح ہے کہ یہ کوئی حادثہ نہ تھا کہ کیپیٹل کمپلیکس جہاں عام طور پر ایک بھاری نفری سیکیورٹی کی موجود ہوتی ہے وہاں ٹرمپ کے اکسائے ہوئے بڑے پیمانہ پر ہونے والے مظاہرہ سے نمٹنے کے لئے پولیس کا محض ایک علامتی دستہ چھوڑا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح پولیس نے بھیڑ کے داخلہ کے لئے دھاتی رکاوٹیں کھول دیں۔

یہ وہی سیکورٹی فورسز ہیں جنہوں نے بلیک لائوز میٹر کے مظاہرین سے نمٹنے کے لئے پچھلے سال جون میں ہی بھاری تعداد میں مسلح نیم فوجی دستے بھیج دیئے تھے۔ سیکیورٹی فورسز کے اس حالیہ انتہائی مشکوک رویہ کے پیچھے جو بھی سازشیں ملوث ہوں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب ریپبلیکن پارٹی میں ٹرمپ کے حمایتیوں اور گرینڈ اولڈ پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ کے مابین ایک وسیع خلیج جنم لے چکی ہے۔ ایک اور نتیجہ سرمایہ کا جو بائڈن کے پیچھے نہ سہی مگر آئینی بالادستی کے دفاع کے پیچھے کھڑا ہونا ہے۔

چار سال تک ریپبلیکن پارٹی کی “معزز” اسٹیبلشمینٹ کو ایک غیرمستحکم راہنما پر انحصار کرنا پڑا کہ وہ پارٹی کے لئے ووٹ حاصل کرے۔ ان میں بہت سے چناؤ کے نتائج کو سبوتاژ  کرنے کے لئے ٹرمپ کے اس ناکام کارنامہ کے حق میں تھے۔ گرینڈ اولڈ پارٹی کے نمائندوں کی بڑی تعداد نے توثیق کے خلاف  ووٹ کیا۔

نازیبا قانونی دعووں کا انعقاد، دھوکہ دہی کے ایسے دعوے کرنا جو باآسانی جھوٹے ثابت ہو سکیں، جرنیلوں کو مداخلت کی دعوت دینا، حتیٰ کہ ووٹوں کی دھاندلی کا بےشرم حربہ اختیار کرنا، یہ وہ تمام عوامل تھے جو بظاہر ان سب کے لئے قابلِ قبول تھے۔

مگر پھر ایک مظاہرہ کو یہ دعوت دینا کہ وہ حکمران طبقہ کے تخت کو چیلنج کرے اور ایک پارٹی سے دوسری پارٹی تک طاقت کی منتقلی کی مقدس رسم میں اشتعال انگیزی کے ذریعہ رکاوٹ بنے ، یہاں پانی سر سے اوپر چلا گیا، جیسا کہ “ڈیپ اسٹیٹ” کے کیڈرز نے بہت واضح کر دیا ہے۔

اس بغاوت کی مکروہ ناکامی کے باوجود، اس کی اہمیت کے دو پہلو ہیں۔ 1923 کے میونخ بیئر ہال بغاوت کی طرح اس نے بھی سفید فام نسل پرست اور فسطائی گروہوں کو جلا بخشی ہے اور انہیں انتہائی دائیں بازو کی ایک عوامی تحریک کی جانب راغب کیا ہے۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ اس تمام صورتِ حال کی پیش رفت کس سمت میں ہو گی۔ مگر یہ واضح ہے کہ معاشی لبرلزم کی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر بائڈن اور ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت اس نسل پرست دلدل کو روک نہیں پائیں گے جس میں وہ خود پروان چڑھتے ہیں۔

اس سب کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ جو بائڈن نے دونوں ایوانوں کا اقتدار حاصل کیا ہے اور اب اس کا پروگرام امتحان کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔ یہ ناگزیر ہے کہ وہ صحت کے شعبہ کے لئے کچھ خاص نہیں کرے گا یا پھر کچھ بھی نہیں کرے گا باوجود اس کے کہ یہ شعبہ وبا کے دوران کس قدر مزید اہمیت کا حامل ہو چکا ہے۔ نہ ہی وہ قاتل پولیس کو قابو کرنے کے لئے کچھ کرے گا نہ ہی بےروزگاری کی بڑھتی ہوئی لہر کے حوالہ سے کچھ کرے گا۔ اس کے علاوہ ڈیموکریٹس سب سے زیادہ بےکار ثابت ہوں گے جب سوال اٹھے گا جمہوری حقوق کے دفاع کا، خواہ یہ حقوق ریاستی قوتوں کے حملوں کی زد میں آئیں یا  بڑھتی ہوئی فسطائی طاقتوں کے۔

فسطائی اشتعال انگیزی کے خلاف مزاحمت کی صورت میں پہلا امتحان تو بائڈن کے بطور صدر افتتاحی تقریب کے گرد ہی شروع ہو سکتا ہے۔ مزدور تحریک، بلیک لائوز میٹر تحریک اور نوجوانوں اور ڈیموکریٹک سوشلسٹوں کو اپنے دفاع کی مضبوط قوتوں کو منظم کرنا ہوگا تاکہ فاشسٹوں سے نمٹا جا سکے جب بھی اور جہاں بھی وہ نظر آئیں۔

مگر تمام استحصال زدہ اور جبر کے شکار عوام کو اس کووڈ وبا سے جڑے معاشی، ماحولیاتی اور جمہوری بحرانوں سے نمٹنے کے لئے ایک محنت کش پروگرام کی ضرورت ہے۔ ایک امید کا پروگرام جو مالکان کی دولت کو ضبط کرنے اور عالمی سطح پر جمہوری منصوبہ بندی پر منحصر ہو، جو نیولبرل ڈیموکریٹس اور انتہائی دائیں بازو دونوں کی ناامیدی کی سیاست کے خلاف ایک واحد کارآمد متبادل ہے۔

ایسا کرنے کا مطلب محنت کش طبقہ کی پارٹی کی تعمیر ہے۔ ایک ایسی پارٹی جو برنی سینڈرز اور “اسکواڈ” جیسے سرمایہ داروں کے حامی جعل سازوں سے آزاد ہو، جس کے ممبران محنت کش طبقہ کو کام کی جگہوں، کمیونٹی کی سطح اور سڑکوں پر طبقاتی جدوجہد کی بنیاد پر منظم کریں تاکہ سرمایہ داری کا تختہ الٹا جا سکے اور سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جا سکے۔