طلباء یونین بحالی اور نوجوانوں کو درپیش دیگر مسائل پر ایک اور ملک گیر احتجاج

Posted by:

|

On:

|

,

سوشلسٹ ریزسٹنس رپورٹ

کراچی: 19 دسمبر کو کراچی، حیدر آباد، لاہور، اسلام آباد، کوئٹہ، ملتان، ہنزہ اور دیگر علاقوں میں طلباء اور نوجوانوں کے بنیادی جمہوری حقوق کے گرد ریلیاں نکالی گئیں اور احتجاجات منعقد کئے گئے۔ یہ اس ضمن میں اس سال کا دوسرا ملک گیر احتجاج تھا۔ اس سے پہلے اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی، جو ملک کی دیگر طلباء تنظیموں کا ایک اتحاد ہے، کے تحت 27 نومبر کو طلباء کے مسائل کے گرد دیگر شہروں اور علاقوں میں مارچ منعقد کئے گئے تھے۔ 19 دسمبر کو پھر آئی ایم ٹی نے طلباء کے مسائل کے گرد اپنے “نیشنل ڈے آف ایکشن” کی کال دی، جس کے مطالبات میں مفت تعلیم اور طلبہ یونین کی بحالی، خواتین کی جنسی ہراسانی کا خاتمہ، ریاستی جبر و جبری گمشدگیوں اور مہنگائی و بے روزگاری کا خاتمہ شامل ہیں۔ کورونا وبا جیسے مشکل حالات میں طلباء اور نوجوانوں کا یوں باہر نکل کر آنا بہت واضح کر رہا تھا کہ ان پر نظام کے جبر کے اثرات کس قدر گہرے اور پریشان کن ہیں کہ اب اور کوئی چارہ نہیں باقی سوائے جدوجہد کے۔ نوجوانوں کا جذبہ اور ولولہ دیدنی تھا اور انہوں نے نظام کے خلاف اور اپنے حق کی خاطر بھرپور نعرے لگائے۔
انقلابی سوشلسٹ موومنٹ کے ممبران نے دیگر شہروں میں بھی ان ریلیوں میں شرکت کی۔ ہم ان تمام بنیادی جمہوری مطالبات کے حمایت کرتے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان مطالبات کو نہ ہی سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں حاصل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی ایک تنظیم یا ایک محدود اتحاد کی الگ تھلگ حرکت کی بنا پر ان مطالبات کی لڑائی ریاست و نظام سے لڑی جا سکتی ہے۔ لہٰذا ہم پاکستان بھر کی دیگر طلباء تنظیموں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ جب طلباء اور نوجوانوں پر نظام کے حملے ایک سے ہیں تو اس کے خلاف لڑائی کے انتشار کو توڑتے ہوئے ایک عمل کا متحدہ محاذ تشکیل دیا جائے۔ متحدہ محاذ میں شامل تنظیموں کے درمیان نظریاتی ہم آہنگی نہیں ہوتی ہے۔ اگر یہ ہم آہنگی ہوتی تو اسے متحدہ محاذ نہیں کہا جاتا، اسے انقلابی پارٹی کہا جاتا۔ مگر پروگرام اور حکمت عملی کے اختلافات کو بنیاد بنا کر خود کو عوامی حرکت سے کاٹنا فرقہ پروریت ہے جس سے تمام انقلابیوں کو محنت کش عوام کے مفادات کے حق میں اجتناب برتنا ہوگا ورنہ ریاست اپنے حملوں کی شدت میں اضافہ کرتی جائے گی، کامریڈ امر فیاض یا سرمد آزاد جیسے بےگناہ اور شاگرد دوست ساتھی لاپتہ ہوتے جائیں گے، اور ہم اپنے انتشار کے سبب صرف شکست ہی دیکھتے جائیں گے۔ جمہوری حقوق پر ریاست کے حملوں کو روکنے کے لئے آج کے دور کا تقاضہ یہی ہے کہ تمام بائیں بازو کی اور ترقی پسند تنظیمیں اور ایکٹوسٹ بنیادی مطالبات کے گرد عملی لڑائی کا ایک متحدہ محاذ تشکیل دیں، جس میں اتفاق صرف ان مطالبات اور ان کے گرد عمل یعنی ایکشن پر ہوگا۔ یہ کسی قسم کی نظریاتی سمجھوتہ بازی نہیں ہوگی، یہ ریاست کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے انقلابیوں کا ایک طریقہ کار ہے۔
کراچی میں احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انقلابی سوشلسٹ موومنٹ کے کامریڈ یلماز بلوچ نے تنظیمی مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف ڈیل اور کورونا وبا کی آڑ میں اس وقت محنت کش اور غریب خاندانوں کے طلباء اور نوجوانوں پر بڑے حملے کئے جا رہے ہیں اور یہ ریاست اپنے معاشی بحران کا بوجھ فیسوں میں اضافوں اور اسکالرشپ کی کٹوتیوں کی صورت میں ہم پر ڈال رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف ریاست بڑے سرمایہ داروں کو کروڑوں کے ریلیف پیکج دے رہی ہے اور دوسری طرف تعلیم کا بجٹ کاٹ رہی ہے۔ کامریڈ نے مزید یہ کہا کہ یہاں ہم بہت واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح طلباء کے مسائل کا تعلق قومی جبر کے سوال کے ساتھ نتھی ہے۔ مظلوم اقوام کے علاقوں کو جان بوجھ کر پسماندہ رکھا جاتا ہے، وہاں اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم نہیں کئے جاتے اور پھر اطراف کے ان پسماندہ علاقوں کے طلباء کو شہری مراکز کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ ڈاؤ کے طلباء کی رہائش کے حق کے جدوجہد نے یہ واضح کر دیا ہے کہ کس طرح پسماندہ علاقوں سے آنے والے مظلوم اقوام کے طلباء پر پھر شہری مراکز کی زمین بھی تنگ کر دی جاتی ہے۔ یہ مشترکہ اور غیر ہموار ترقی سرمایہ دارانہ نظام کی منطق ہے کہ جس میں شہری مراکز کی ترقی کی قیمت اطراف کے وسائل لوٹ کر اور ان کو جان بوجھ کر پسماندہ رکھ کر لی جاتی ہے۔
کامریڈ یلماز نے تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر بھی بات رکھی اور واضح مؤقف رکھا کہ اس مسئلہ کے خلاف مرد اور خواتین طلباء کو مل کر اپنی کمیٹیاں خود تشکیل دینی چاہیے جو انتظامیہ سے مکمل طور پر آزاد ہو۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کی بنائی ہوئی کمیٹیاں کبھی بھی ہم طلباء کے مفادات کا دفاع نہیں کر سکتیں۔ اگر ہمارا دفاع کوئی کر سکتا ہے تو وہ ہماری آزادانہ تنظیم سازی اور جدوجہد ہے۔ ان آزادانہ کمیٹیوں میں ہم انتظامیہ کی نگرانی یا ان کے کسی ایک فرد کی بھی شمولیت کو قبول نہ کریں کیونکہ جو لوگ خود ہماری جنسی ہراسانی میں ملوث ہیں وہ اس مسئلہ پر ہمیں کیسے انصاف دلا سکتے ہیں۔ تمام جامعات میں ایسی کمیٹیاں بنا کر پھر ہم اس مسئلہ کے گرد ایک متحدہ محاذ کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ نوجوانوں پر جبر کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں ہے، دنیا بھر میں نوجوان نظام کے خلاف حرکت میں آ رہے ہیں۔ ایسے میں ہم انقلابی سوشلسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں ایک نئی کمیونسٹ یوتھ انٹرنیشنل کو تشکیل دینے کے لیے پروگرام اور حکمت عملی پر بحث شروع کرنی ہوگی تاکہ عالمی سطح پر نوجوانوں پر جبر کے خلاف اور اس نظام کے خلاف لڑائی لڑی جا سکے۔ انقلابی سوشلسٹ تمام نوجوانوں اور طلباء کی تنظیموں کو اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی دعوت دیتے ہیں۔