سوشلسٹ ریزسٹنس رپورٹ
۔2 دسمبر کو کراچی پریس کلب پر پاکستان اسٹیل ملز کے مزدوروں کی شاندار جدوجہد کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لئے احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا گیا۔ یہ مظاہرہ ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی کال پر منظم کیا گیا جس میں نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن اور پاکستان اسٹیل ملز کی آل ایمپلائیز ایکشن کمیٹی کے قائدین نے بھی شرکت کی۔ لیفٹ کے ایکٹوسٹوں نے بھی احتجاج میں شرکت کی اور پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری اور 4544 ملازمین کی برطرفیوں کے خلاف مل کر آواز بلند کی۔
احتجاج میں سامراج، سرمایہ داری، برطرفیوں، نجکاریوں اور مزدوروں پر ریاست و نظام کے حملوں کے خلاف زبردست نعرے لگائے گئے۔ پاکستان اسٹیل ملز کے برطرف ملازمین کی بحالی کا مطالبہ بھی پرجوش انداز میں اٹھایا گیا۔ ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی قائد زہرہ خان نے خطاب کے دوران کہا کہ ایک کروڑ نوکریاں دینے کا دعویٰ کرنے والی حکومت نے رات کی تاریکی میں اسٹیل ملز کے ساڑھے چار ہزار ملازمین کا معاشی قتل کر دیا۔ انہوں نے مزید یہ کہا کہ یہ حکومت محنت کش طبقہ کے لئے ایک جان لیوا بیماری کی صورت اختیار کر چکی ہے اور اس سے نجات وقت کی ضرورت ہے۔
پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کی احتجاجی تحریک ایک عرصہ سے جاری ہے۔ حالیہ دنوں میں اسٹیل ملز مزدوروں نے دو روز قبل کراچی کا نیشنل ہائی وے بند کر دیا تھا اور اگلے دن ریل کی پٹری پر احتجاجاً لیٹ گئے تھے۔ ریلوے والے احتجاج نے سندھ حکومت کو مزدوروں کی بات سننے آنے پر مجبور کیا اور سعید غنی نے مظاہرین کو یقین دہانی کرائی کہ مذاکرات کے لئے یہ احتجاج ختم کر دیں۔ انہوں نے ساتھ اپنا وہی وعدہ بھی دہرایا جو وہ کم و بیش ہر احتجاجی تحریک کو ختم کروا کر کرتے ہیں کہ اگر آپ کے مسائل پھر بھی حل نہ ہوئے اور حکومت نہ مانی تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آج پائلر کے پلیٹ فارم سے ایک پریس کانفرنس بھی ہوئی جس میں رضا ربانی کے ہمراہ اسٹیل ملز کی ٹریڈ یونین قیادت نے اپنے مسائل بیان کئے۔ اب کل کے روز ٹریڈ یونین قیادت سعید غنی کے ہمراہ ایک اور پریس کانفرنس کرنے جا رہی ہے جس کے بعد مزید لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
اسی سلسلہ میں کراچی کے علاوہ لاہور میں بھی آل ایمپلائز ایکشن کمیٹی اور سٹیل مل ورکرز کے زیرِ اہتمام پاکستان اسٹیل ملز کے مزدوروں کی جبری برطرفیوں اور نجکاری کے خلاف لاہور پریس کلب کے باہر مظاہرہ کیا گیا۔ دیگر اداروں کی یونین قیادتوں نے بھی احتجاج میں شرکت کی اور حکومت کی مزدور دشمنی کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی۔کراچی اور لاہور میں انقلابی سوشلسٹ موومنٹ کے ساتھیوں سٹیل مل کے محنت کشوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مظاہروں میں شریک ہوئے۔
انقلابی سوشلسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست کے حملے صرف موجودہ حکومت تک محدود نہیں ہیں، یہ اس نظام کے حملے ہیں۔ صرف پاکستان اسٹیل ملز ہی نہیں، کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں جس کو موجودہ یا پچھلی حکومتوں نے نجکاریوں اور برطرفیوں کے حوالہ سے بخشا ہو۔ ایک طرف آئی ایم ایف ڈیل کے سبب محنت کشوں پر برطرفیوں اور نجکاریوں کی طوفانی بارش کر دی گئی، پھر کورونا وائرس وبا کی آڑ میں ان حملوں کو مزید شدید تر کر دیا گیا۔ محنت کشوں، غریب کسانوں، مظلوم اقوام اور طلباء پر ریاست بری طرح حملہ آور ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر طرف تحریکیں اس نظام کے جبر کے خؒاف ابھر رہی ہیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ مزدوروں کو اپنے تجربات سے خود بھی یہ اندازہ ہو جائے گا کہ نہ سعید غنی ان کا سجن ہے اور نہ ہی کوئی بھی حکمران طبقہ کا نمائندہ ان کے مسائل حل کروانے کی سکت رکھتا ہے۔ سعید غنی نے ایسے ہی وعدے کئے تھے جب اس نے ڈاؤ بوائز ہاسٹل کے طلباء کی تحریک کے خاتمہ کے لئے مذاکرات کئے تھے۔ اس کے وعدوں کی بھی وہی حقیقت ہے جو عمران خان کے ایک کروڑ نوکریاں دینے کی حیثیت ہے۔ یہ حکمران طبقہ کی پارٹیاں ایک دوسرے کی ٹانگ صرف اپنے اندرونی تضادات کے سبب کھینچتی ہیں ورنہ ہم محنت کشوں، غریب کسانوں، مظلوم اقوام و طلباء کے لئے ان سب پارٹیوں کا طبقاتی کردار ایک ہی ہے۔ یہ کل بھی ہمارے دشمن تھے اور آج بھی ہمارے دشمن ہیں۔ ان پر بھروسہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ پاکستان اسٹیل ملز کے محنت کش یہ جانتے ہیں کہ سعید غنی کو ان مزدوروں کی ہی جدوجہد نے آنے پر مجبور کیا۔ انہیں یہ یاد رکھتے ہوئے آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا۔ پاکستان اسٹیل ملز کو پہلے بھی یہی مزدور چلاتے تھے اور آئندہ بھی یہی مزدور چلا سکتے ہیں۔ یہ حکومت مکمل طور پر نااہل ثابت ہو چکی ہے ادارے کو چلانے میں لہٰذا اب وہ وقت آ چکا ہے کہ محنت کش معاملات اپنے ہاتھ میں لیں اور اپنے ادارے کو پہلے کی طرح خود چلائیں۔ اس کے علاوہ دوسرا کوئی بھی حل حکمرانوں کی جیبیں تو گرم کر سکتا ہے مگر ان برطرف ملازمین کا معاشی قتلِ عام روک نہیں سکتا۔ مزدوروں کی طاقت اگر سعید غنی کو آنے پر مجبور کر سکتی ہے تو یہی طاقت انہیں اپنا ادارہ اپنے ہاتھوں میں بھی دلوا سکتی ہے۔ آخری فتح ہماری ہو گی!
تیز ہو تیز ہو، جدوجہد تیز ہو!