ڈیو اسٹاکٹن
مارچ میں مکمل طور پر پرامن اور غیر مسلح مظاہرین کے خلاف میانمار کی فوج تاتماڈو کی طرف سے ظلم و ستم میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ربڑ کی گولیوں کے علاوہ براہ راست فائرنگ کی گئی ہےاور ایسے دستی بم مظاہرین پر پھینکے جارہے ہیں جس سے بڑی تعداد میں بال بیرنگ نکلتے ہیں جو شدید زخموں کا سبب بنتے ہیں۔
شمالی شہر میٹکیینا میں اسنائپر مظاہروں کے راستوں کے ساتھ عمارتوں سے اندھا دھند فائرنگ کرتے ہیں۔ ینگون اور دوسرے شہروں میں رات کے وقت چھاپے مارکر سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا جارہا ہے، ملک کی انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق حراست میں لینے والے افراد کی تعداد اب ایک ہزار سے بھی زیادہ ہے۔
زیر حراست آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے ایک عہدیدار کی قید میں ہی موت ہوگئی ہےاور یہ دو دن میں ہی دوسری موت ہے۔
بڑے پیمانے پر مظاہروں کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلح افواج کے کمانڈر انچیف من آنگ ہیلنگ اس بغاوت کو کچلنے کے لئے تیزی سے مہلک طاقت کا استعمال کررہے ہیں۔ میکبیت کی طرح وہ بھی بلا شبہ سوچتا ہے کہ ”میں اس حد تک خون میں چلا گیا ہوں جسے عبور کرناممکن نہیں جبکہ واپس آنا اتنا ہی تکلیف دہ ہے جتنا کہ اسے ختم کرنا ہے”۔
اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق یکم فروری سے اب تک اموات کی تعداد 50 ہو چکی ہیں جبکہ صرف 28 فروری کو ہی 18 افراد ہلاک اور 30 سے زیادہ شدید زخمی ہوئے۔ اس کے بعد 3 مارچ کو نیم فوجیوں نے تیز رفتار رائفلوں کا استعمال کرتے ہوئے کم از کم 38 افراد کو ہلاک کردیا جس میں ایک 14 سال کی عمر کا بچہ بھی شامل تھا۔ یہ قتل و غارتگری ملک کے سب سے بڑے شہر اور صنعتی مرکز ینگون میں ہوئی ہے اوراسی طرح منڈالے اور ملک کے دیگر کئی شہروں میں ہورہی ہیں لیکن ملک گیر بغاوت کو کچلنے کے لیے اس سے کہیں زیادہ اسے خون میں ڈوبانا ہوگا۔
ہلاکتیں اور بڑے پیمانے پر گرفتاریوں میں زبردست اضافہ کے باوجود یہ مظاہروں کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ انہوں نے مظاہرین کو دفاعی اقدامات لینے پر مجبور کردیاہے۔ اگرچہ یہ مظاہرین اب بھی مکمل طور پر پُرامن ہیں اور نوجوان فوجی گاڑیوں کے گزرنے میں رکاوٹ پیدا کرنے کے لئے ہیلمٹ اور دیسی ساختہ ڈھالوں کے ساتھ رکاوٹیں ڈال کرفوجی نکل وحرکت کو روک رہے ہیں۔
اس فوجی بغاوت کو شکست دینے کے لئے سب سے اہم عامل احتجاج اور بار بار ہڑتالوں میں محنت کشوں کے بڑھتے ہوئے کردار کا ہے۔ میانمار کی صنعتی ورکرز فیڈریشن، آئی ڈبلیو ایف ایم اور نویونینوں نے 22 فروری اور 8 مارچ کو یوم خواتین کے عالمی دن پر ایک دن کی عام ہڑتال کی اپیل کی تھی جس میں فیکٹریوں، دکانوں، سرکاری دفاتر، بینک اور ریلوے کے ورکرز احتجاج میں آئے تھے۔ میانمار کی فیڈریشن آف گارمنٹس ورکرز، ایف جی ڈبلیو ایم، جس میں 20 مقامی یونینیں شامل ہیں، نے اس میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے کارخانے بین الاقوامی برانڈ ۔H&Mجیسے نارتھ فیس اور کے لئے کپڑے تیار کرتے ہیں۔
ریل ورکرز، گارمنٹس ورکرز، سرکاری ملازمین، ہیلتھ ورکرز اور تانبے کے کان کن بار بار احتجاج میں شامل ہوئے ہیں۔ ملک کے قومی ریلوے سسٹم کے ہڑتال کرنے والے ورکرز کے رہائشی کمپاؤنڈ کو فوج نے گھیرے میں لے لیا تھا اور انہیں گرفتار کرنے کی دھمکی دی تھی۔ ایک مشہور منتظم، مو سندر مائنٹ نے بتایا، ”ورکرزاس لڑائی کے لئے تیار ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ فوجی استبداد کے تحت صورتحال مزید خراب ہوگی، لہذا ہم آخر تک یکجا اور متحد ہوکر لڑیں گے“۔ اس میں تعجب کی بات نہیں کہ فروری کے آخر میں تمام آزاد یونین فیڈریشنوں پر پابندی عائد کردی گئی۔
دس سال قبل میانمار کوغیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے کھولنے کے بعدشہری مزدور طبقے کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے خاص طور پر یانگون کے صنعتی علاقے میں۔ گارمنٹس کے ورکرز جن میں زیادہ تر بہت کم عمر خواتین ہیں جو دیہی علاقوں سے آئی ہیں اوریہ ان پدسری روایتوں کو توڑرہی ہیں جن میں ان کی پرورش ہوئی ہے، وہ بہتر کام کرنے کے حالات اور زیادہ اجرت کے لئے منظم اور لڑ رہی ہیں۔ اب بیس یونین رہنماؤں کے لئے گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیئے گئے ہیں، جن میں آئی ڈبلیو ایف ایم کی نائب صدر سوئی لی بھی شامل ہیں۔ اس کے صدر زار نے دنیا بھر کے لوگوں کے لئے ایک اپیل جاری کی ہے۔
“سول نافرمانی، احتجاج اور ہڑتالوں کے ذریعہ میانمار کے عوام واضح اور بلند آواز میں بات کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں بین الاقوامی برادری کو بھی ایسا کرنا چاہیے ہے۔ ہمیں ضرورت ہے کہ آپ اس بغاوت کو ختم کرنے کے لئے ہمارے ساتھ کھڑے ہوں“۔
اب یہ بات صاف ہے کہ جنرلوں کو محض بار بار اس بات کے ثبوت کے ذریعہ اقتدار سے الگ نہیں کیا جاسکتا کہ میانمار کے شہروں کی آبادی ان سے نفرت کرتی ہے اور ان کی آمریت کو مسترد کرتی ہے۔ بہرحال1962 کے بعد سے تاتماڈو نے کبھی بھی منتخب سویلین حکومت کو حقیقی اقتدار نہیں دیا ہے۔ اس کا ریکارڈ بدعنوانی، معاشی کنٹرول اور اقلیتی نسلوں کے خلاف کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ، (کاچن، کیرن، کیین، مون، روہنگیا، وغیرہ) ہے جو ملک کی 32 فیصد آبادی پر مشتمل ہے لیکن طویل عرصے سے برما کی اکثریت کے مظالم کا نشانہ بن رہے ہیں۔
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ نوجوان مظاہرین کی مزاحمت کی صلاحیت نے جرنیلوں کی ذہنیت میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے جو شہروں سے دور خصوصی علاقوں میں نجی گولف کورسز کے ساتھ اپنی پرتعیش ساگون والی لائنوں میں رہائش پذیر ہیں البتہ پولیس کے درمیان عدم استحکام کے آثار ہیں۔ اب تک انہوں نے تاتماڈو کا گھناؤنا کام کرنے کا نتیجہ برداشت کیا ہے۔ کچھ نے غیر مسلح مظاہرین پر فائرنگ کے احکامات سے انکار کردیا ہے اور ہمسایہ ملک بھارت فرار ہوگئے ہیں۔ بھارت کے شہر میزورام میں چار افسران نیپولیس کے لیے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے۔
“چونکہ سول نافرمانی کی تحریک زور پکڑ رہی تھی اور بغاوت کے خلاف مظاہرین کی جانب سے مختلف مقامات پر مظاہرے کیے جارہے تھےاور ہمیں مظاہرین پر گولی چلانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ ایسے حالات میں ہمارے پاس اپنے ہی لوگوں پر گولی چلانے کی ہمت نہیں ہے جو پرامن مظاہرین ہیں۔ ”
جب محنت کش طبقہ معیشت کو بند کردئے تومتحرک کارکن ”افواج” کے حوصلے پست کر سکتے ہیںاور خاص کر جب یہ متحرک کارکن اپنے آپ کو مسلح کر لیںیعنی اگر احتجاج انقلاب اور بغاوت بن جائے تو ہی فتح حاصل کرسکتا ہے۔ یہ دس سال پہلے عرب بہار کا اہم سبق ہے۔
صدر جو بائیڈن نے بغاوت کی مذمت کی ہے اور امریکہ نے فوجی ہائی کمان کے ممبروں پر محدود پابندیاں عائد کردی ہیں۔ آسٹریلیا نے شہریوں کے عالمی حقوق کے استعمال کے خلاف مہلک طاقت یا تشدد کے استعمال کی مذمت کی ہے اور تاتماڈو کے ساتھ اس کے ”دفاعی تعاون پروگرام” کو معطل کردیا ہے۔ یوروپی یونین کی خارجہ پالیسی کے اعلی نمائندے جوزپ بوریل نے بھی ”میانمار کی فوج کے ذریعہ پرامن مظاہرین پر پرتشدد جبر” کی مذمت کی اور ”جمہوریت کی واپسی” کا مطالبہ کیا ہے۔
پچھلے سال اپریل اور نومبر میں من آنگ ہیلنگ نے برسل میں ناٹوکے سربراہوں کے ساتھ ملاقات کی اور انہوں نے میانمار کی نسلی اقلیتوں کے خلاف جنگ میں اپنی مسلح افواج کے لئے ہائی ٹیک ہتھیاروں اور بکتر بند گاڑیاں خریدنے کے لئے جرمنی، آسٹریا اور اٹلی کا بھی دورہ کیا۔ یہ روابط 2017 میں 75000روہنگیا کی نسلی صفائی کے باوجود جاری رہے تھے۔ در حقیقت ملک کا دفاعی بجٹ پہلے ہی مشترکہ صحت اور تعلیم کے بجٹ سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن مغربی سامراجی جمہوریتوں سے فیصلہ کن انداز میں کچھ کرنے کی امید بیکار ہوگی۔
اس سے بھی کم امکان ہے کہ نیا سامراجی ”کمیونسٹ چین” اس کی مخالفت میں ایک لفظ بھی نہیں کہے گا۔ بیجنگ بحر ہند پر بندرگاہ کی بڑی سہولیات تک پہنچنے کے لئے برما کے راستے اپنے ”بیلٹ اینڈ روڈ” کی تعمیر میں مصروف ہے۔ یہ راستہ چین کے لئے بڑے پیمانے پر اسٹرٹیجک اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سے ہونے والی تجارت سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے ممکنا ٹکراؤسے بچنا ممکن ہوگا۔
اس کے علاوہ، 1989 میں تیامن مین اسکوائر میں جمہوریت کے ہزاروں مظاہرین کو ذبح کرنے والی ایک حکومت جو اس وقت ہانگ کانگ میں جمہوریت کے مظاہرین پر گرفت رکھے ہوئے ہے اور ایک ملین یغوروں کی ثقافتی نسل کشی کر رہی ہے۔اس کی طرف سے زبانی طور پربھی میانمار میں اس طرح کی بغاوت کے خلاف کچھ کہنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
یہ بہت ضروری ہے کہ یورپ میں سوشلسٹ اور ٹریڈ یونینیسٹ نہ صرف میانمار کے نوجوان مظاہرین اور ورکرزکے ساتھ یکجہتی کا اعلان کریں بلکہ اپنی حکومتوں کو تاتماڈو کو مسلح کرنے اور اس کے سفاک جرنیلوں کو باز رکھنے پر مجبور کریں۔ دنیا بھر میں ٹریڈ یونینسٹوں اور سوشلسٹوں کو میانمارتک جانے والے سامان کو روکنا چاہیے۔ میانمار کی فوج کو اسلحہ فراہم کرنے والے ممالک کو باز رکھنے کے لیے ان دباؤ ڈالا جانا چاہئے۔ در حقیقت ناجائز جنتا کے ساتھ تمام روابط کو بے نقاب اور منقطع کرنا چاہئے۔
اگر میانمار کے ورکرزایک عام ہڑتال کی طرف بڑھتے ہیں تو اس سے فوج میں خاص طور پرآفیسرز اور سپاہیوں کے مابین پھوٹ پڑسکتی ہے۔ یہ فوجی اور پولیس ہی ہیں جن کے پاس ہتھیار موجود ہیں اور یہاں تک کہ سب سے بڑی عوامی تحریک کے غیر مسلح رہنے کی صورت میں اسے شکست دی جاسکتی ہے۔ آخر میں صرف فوجیوں کے نظم و ضبط کو توڑ کر عوام کے شانہ بشانہ لانے سے ہی یہ ممکن ہوگا کہ عوامی احتجاج کو ایک ایسے انقلاب میں تبدیل کیا جا ئے جو قاتلوں کو اقتدار سے ہٹا دے اور ان کے جرائم کے لئے ان کو انصاف کے کٹہرے میں لے آئے۔ اس دن تک جلد پہنچنے کے لئے دنیا بھر کی ٹریڈ یونینوں اور سوشلسٹ تنظیموں کو میانمار کے ورکرز اور نوجوانوں سے اظہار یکجہتی کے لئے فوری طور پر عملی اقدامات کرنے چاہیے۔