پشاورمیں پی ٹی ایم کا تعزیتی جلسہ

Posted by:

|

On:

|

,

تحریر:ذیشان امان (این ایس ایف)

پشاور میں پروفیسر ارمان لونی کے لیے ہونے والے تعزیتی جلسہ کو حکومت نے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر اتنی رکاوٹوں کے باوجود جلسے کے انعقاد نے واضح کردیا کہ حکومت ناکام ہوگی ہے۔ریاست پی ٹی ایم کے جنگ مخالف اور امن کے بیانیہ سے گھبراتی ہے کیونکہ یہ دہشت مخالف جنگ پر سوال اُٹھتی ہے کہ کیسے اس جنگ نے پشتون علاقوں کو تباہ کیا اور اب بھی سامراج اور ریاست کے مفادات کے لیے پشتونوں کو برباد کیا جارہا ہے اور ریاست کی پالیسیوں کی وجہ سے ان کی بربادی کے باوجود ان کی بحالی کے لیے کچھ نہیں کیا جارہا بلکہ طالبان کے نام پر ان کو دبایا جارہا ہے۔
پشاور جلسے کے لیے جگہ کی اجازت دینے کے باوجود مسجدوں کے لاؤڈسپیکروں کو پی ٹی ایم کیخلاف جھوٹے پراپیگنڈہ کے لیے استعمال کیا گیااور یہ کہا گیا کہ پی ٹی ایم ریاست دشمن تنظیم ہے اور یہ ریاست مخالف جلسہ منعقد کرنے جارہی ہے۔اس کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنان نے جلسہ گاہ پر دھاوا بولا اور پی ٹی ایم کے کارکنان پر جسمانی حملے اور نعرہ بازی کرکے انہیں تشدد پر اکسانے کی کوشش کی۔
جلسے سے پہلے اور جلسہ گاہ سے پی ٹی ایم کے کارکنان کو گرفتار کیا گیا، پشتون خواہ کے مختلف علاقوں سے آنے والے قافلوں کو جلسے میں شرکت سے روکا گیااور ایک دن پہلے پی ٹی ایم کو جلسے کی جگہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا اور جلسہ والے دن علاقے میں انٹرنیٹ بھی بند کردیا گیا۔
یہ سب اقدامات اس بات کی دلیل ہیں کہ ریاست عوامی جدوجہد سے خوفزدہ ہے جو پی ٹی ایم کی صورت میں سامنے آئی۔یہ جنگ مخالف تحریک اتنی طاقت ورہے کہ یہ ریاست کو بارہا جھکنے پر مجبور کرچکی ہے۔اس لیے ریاست اور اشرافیہ اس سے خوفزدہ ہے کہ یہ ان کے مقاصد کے راستے میں رکاوٹ بن گی ہے اور دہشت مخالف جنگ میں ہونے والے مظالم پر سوال اُٹھاتی ہے۔اس تحریک میں اتنی طاقت ہے کہ یہ پاکستان میں جمہوری آزادیوں کی جدوجہد جیت سکتی ہے لیکن اس کے لیے پی ٹی ایم کو قومی تناظر سے آگے جانا ہوگا۔اس حوالے سے منظور پشتین کی اس جلسہ میں بلوچ،گلگت بلتستان،سندھی اور کشمیری قوم سے یکجہتی اور مل کر جدوجہد کی اپیل نہایت اہم ہے۔ پی ٹی ایم ایسے متحدہ محاذ کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہے اور اسے یہ کردار ادا کرنا چاہیے اس کے ساتھ اسے لیفٹ اور ٹریڈ یونینز کو بھی ایسے متحدہ محاذ میں شامل ہونے کی اپیل کرنی چاہیے تاکہ مل کر اس نظام کے جبر اور حملوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔لیکن اسے ریاست کی استبدادیت کے خلاف اور جمہوری آزادیوں کی جدوجہد کی کامیابی کے لیے سرمایہ داری نظام کے خاتمے کے تناطر پر جانا ہوگا۔