سوشلسٹ ریزسٹنس رپورٹ
کراچی میں اتوار 6 دسمبر کو پشتون تحفظ موومنٹ کا جلسہ الآصف اسکوائر پر منعقد کیا گیا جس میں پی ٹی ایم قیادت نے خطاب کیا اور بڑی تعداد میں کراچی کے پشتونوں اور لیفٹ کے چند ساتھیوں نے شرکت کی۔شرکاء کی تعداد کم از کم بیس ہزار تھی۔آج کے جلسے کےدرج ذیل مطالبات تھے
اول آپریشن راہِ نجات کے دوران تمام تباہ شدہ مکانات، جن کے سروے ہو چکے ہیں اور حکومت نے ان کو ٹوکن دیئے ہیں ان کو فوری طور پر چیک جاری کئے جائیں.دوم آپریشن راہِ نجات کے دوران تباہ شدہ مکانات، جن کا ابھی تک سروے نہیں ہوئے ان کے مکانات کے سروے کے لئے فوری طور پر ٹیمیں بھیجی جائیں۔سوم تباہ شدہ مکانات کے سروے کے دوران فیز 1 اور فیز 2 میں جن لوگوں کے گھر سروے سے رہ گے ہیں انکے فوری طور پر دوبارہ سروے کروائے جائیں۔
جلسہ سے خطاب کے دوران ڈاکٹر سعید عالم نے کہا کہ ریاست کی جانب سے ایجنٹ ایجنٹ کی بات نہیں ہونی چاہیے کیونکہ جن کے سارے بچے یورپ اور امریکہ میں پڑھتے ہیں اور جن کی پیزا کی اور دیگر کمپنیاں یورپ اور امریکہ میں ہوں اور جو خود ڈالر کے بھوکے ہیں اور ڈالروں کے لئے اسلام کو بھی بیچتے ہیں، وہ ہمیں ایجنٹ کہیں یہ ہم نہیں مانتے۔انہوں نے مزید یہ کہا کہ جب کراچی شہر میں پی ٹی ایم کا پہلا جلسہ ہوا تھا تو ریاست نے بہت جبر و ظلم کیا تھا۔ پھر دوسرے جلسہ میں تھوڑا کم ظلم ہوا اور اب اس جلسہ میں نسبتاً اچھا ماحول ہے۔ مگر انہوں نے کہا کہ میں اپنے بچوں سے کہتا ہوں کہ یہ نہ سمجھنا کہ ریاست بدل گئی ہے یا حکمران انسان بن گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ریاست کتے کی دم کی طرح ہے جس پر کراچی کے سارے پلازا ڈال دو اور پچاس سال بعد بھی اٹھاؤ تو ٹیڑھی ہی نکلے گی۔
محسن داوڑ نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ جنگ اور طالبان ہم پر مسلط کئے گئے۔ دوسری طرف جرنیلوں نے پیسے کمائے اور اربوں روپے کے بینک بیلنس بنائے اور ساتھ دنیا بھر میں پشتونوں کا یہ تشخص اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ پشتون دہشتگرد ہیں۔ مگر آج پی ٹی ایم نے دنیا بھر کو بتا دیا ہے کہ یہ جنگ پاکستان کے اداروں کی دہشتگردی کے سبب ہوئی اور آج بھی کوئٹہ میں ان دہشتگرد عناصر کے اڈے موجود ہیں جو افغانستان میں مسلط ہونا چاہتے ہیں۔ محسن داوڑ نے مزید کہا کہ وزیرستان میں جو طالبان ریکروٹ ہو رہے ہیں انہیں مستقبل کی جنگ کے لئے تیار کیا جا رہا ہے اور آئندہ دنوں میں پشتون وطن پھر اس جنگ کا میدان بنے گا مگر یہ ریاست پی ٹی ایم کی موجودگی میں یہ پالیسی مسلط نہیں کر سکتی۔ انہوں نے ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دہشت مخالف جنگ کے نام پر 65000 افراد اس خطہ میں شہید ہوئے جس میں سے 45000 صرف پشتون خواہ میں شہید ہوئے۔ انہوں نے مزید یہ کہا کہ موجودہ ریاستی ڈھانچہ میں چھوٹی قومیتوں کے مسئلہ کا حل ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ ایک صوبہ طاقتور ہے اور دوسروں کے مسائل سے اس صوبہ کو سروکار نہیں۔ محسن داوڑ نے کہا کہ ہم برابری کی بنیاد پر نمائندگی چاہیں گے۔ “اگر نہیں دیں گے تو بھائی میرے یہ کمپنی نہیں چلے گی۔
جلسہ میں ایک اور مقرر نے خطاب کے دوران کہا کہ یہاں جلسہ میں لوگ اس لئے آئے ہیں کہ اس شہر میں پشتونوں پر ظلم ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وردی والے ہمیں گھر سے پکڑ کر جیلوں اور عقوبت خانوں میں لے جاتے تھے اور جب ہم پیسے نہیں دیتے تھے تو یہ ہمیں مار دیتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لاشوں پر بھی ایدھی سینٹر کو کہا جاتا کہ لکھو یہ دہشت گرد تھا۔
انقلابی سوشلسٹ موومنٹ پی ٹی ایم کے تمام مطالبات کی تائید و حمایت کرتی ہے کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تمام مطالبات بنیادی جمہوری حقوق پر مبنی ہیں جو شہری مراکز اور اطراف میں بسنے والے تمام شہریوں کو یکساں میسر ہونے چاہئیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پشتون تحفظ موومنٹ پاکستان کی سب سے طاقتور جمہوری تحریک کا اظہار ہے۔ پشتون عوام نے پاکستانی ریاست و عالمی سرمایہ داری نظام کی پالیسیوں کی سب سے بھاری قیمت ادا کی ہے۔ سامراج کے کردار کو بھی یہاں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ سامراجی جنگوں کے متاثرین میں پشتون صف اول میں کھڑے ہیں۔ ایک طرف طالبان و مجاہدین ہیں، جنہیں امریکی سامراج نے خطہ میں اپنے مفادات کے لئے خود پہلے تیار کیا اور پھر پاکستان، بھارت و افغانستان جیسے نیم نوآبادیاتی ریاستوں نے اپنے اپنے اثر و رسوخ کو خطہ میں مضبوط کرنے کے لئے پراکسی جنگوں کے لئے ان پر ہاتھ رکھا۔ رجعت اور مذہبی انتہا پسندی کے ان پیکروں کے ہاتھوں بربریت کے بڑے حملوں کا سامنا پشتون سماج کو ہوا اور پھر مزید بربریت، ظلم و تشدد کا سامنا دہشت مخالف جنگ، ڈرون حملوں اور فوجی آپریشنوں کی صورت میں جھیلنا پڑا۔ نیز سامراج کی جنگ اور اس جنگ کے بعد مزید جنگوں کی قیمت پشتون عوام نے ادا کی جبکہ عالمی سرمایہ داری نے انہی جنگوں سے خوب منافع کمائے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے مطالبات کا حصول اس نظام میں ممکن نہیں کیونکہ سرمایہ داری کی منطق میں ناہمواریت پیوست ہے اور ترقی کی بنیاد ہمیشہ اطراف کے استحصال و جبر پر کھڑی ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر پنجاب مرکوز ریاست سے مظلوم اقوام کے علاقوں کو وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور جنگ سے چھٹکارا دلانا ہے تو ہماری جدوجہد کا پروگرام طبقاتی اور انٹرنیشنلسٹ بنیادوں پر ہونا چاہیے تو ہی پی ٹی ایم کے مطالبات کو منوایا جاسکتا ہے لیکن ان مطالبات کو منوانے اور سامراج و ریاست سے نجات اس نظام کے خاتمے کی جدوجہد سے جڑئی ہوئی ہے ۔
ایسی حکمت عملی تیار کرنے کے لئے یہ بھی واضح کرنا ہوگا کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو پی ٹی ایم کے جمہوری مطالبات کا حصول یقینی بنا سکتی ہیں۔ سامراج کے کسی ایک دھڑے یا افغانستان و پاکستان یا کسی بھی ریاست کے حکمران طبقات سے یہ امید لگانا کہ وہ پی ٹی ایم کے مطالبات کے حصول کو یقینی بنا سکتے ہیں صرف خود فریبی ہو گی کیونکہ ہر قوم میں طبقات ہوتے ہیں اور طبقاتی مفادات پہلے آتے ہیں، یہی وجہ ہے پاکستان فوج میں بھی پنجابیوں کے بعد سب سے بڑی اکثریت پشتونوں کی ہے۔ لہٰذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پشتون عوام پر جبر کے خاتمہ کے لئے اس جنگ مخالف تحریک کو دیگر مظلوم اقوام اور خطہ کے محنت کش طبقہ کی جدوجہد کے ساتھ جوڑنا یوگا تاکہ ایک متحدہ محاذ کی صورت میں اس نظام کے خلاف ایک حقیقی لڑائی لڑی جا سکے۔
تمام پشتون و دیگر لاپتہ اسیران کو فوراً رہا کرو.
۔پشتونوں کا قتلِ عام اور ان کی نسل پرست تشخیص یعنی ریشیل پروفائلنگ فوراً بند کی جائے
۔لینڈ مائنز کا فوری خاتمہ کیا جائے!-پشتونوں کے علاقوں سے تمام فوجی اور نیم فوجی دستے واپس جائیں
۔سرحد کے دونوں پار طالبان و دیگر دہشتگرد عنصر کی پشت پناہی فوری طور پر بند کی جائے
۔جنگ مخالفت کی پالیسی پر عمل کیا جائے اور ہر قسم کے جنگی جنونیت کو رد کیا جائے