جنسی تشدد کے خلاف احتجاجات

Posted by:

|

On:

|

, ,

سوشلسٹ ریزسٹنس رپورٹ

12 ستمبر کو کراچی، لاہور، کوئٹہ اور اسلام آباد میں موٹر وے ریپ کیس اور دیگر جنسی جبر و تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف احتجاجات منعقد کئے گئے۔ یہ احتجاجات خواتین کی تنظیموں نے منظم کئے تھے اور بڑی تعداد میں لوگوں نے ان میں شرکت کی۔ انقلابی سوشلسٹ موومنٹ نے ان احتجاجات کی کال کی حمایت کی اور ان میں شرکت کر کے جنسی تشدد کے متعلق اپنا مؤقف اور مارکسی نکتہء نظر پیش کیا۔

لبرل دانشور اکثر جنسی جبر کے حوالہ سے غلط شعور یعنی پدرشاہی پسماندہ شعور کو کوستے دکھائی دیتے ہیں۔ اس شعور کو تبدیل کرنا نہایت اہم ہے مگر ہم بحیثیت انقلابی سوشلسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ غلط شعور محض ایک علامت ہے، جنسی جبر و تشدد کے واقعات کی اصل جڑ تو نجی ملکیت ہے۔ سرمایہ داری کی بنیاد ہی نجی ملکیت ہے اور خاندان وہ پہلی درسگاہ ہے جہاں سے عوام میں غلط شعور پروان چڑھایا جاتا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ غلط شعور جیسی علامت کو بدلنا ہے تو اس علامت کی اصل جڑ کا کوئی حل نکالنا ہوگا۔ وہ جڑ عورت اور بچوں کا مردوں کی نجی ملکیت ہونا ہے۔ اس جڑ کو کاٹنا اب ناگزیر ہو چکا ہے۔ سرمایہ داری میں مزید کوئی گنجائش نہیں کہ وہ عوام کی اکثریت کی فلاح کے لئے کوئی سامان کر سکے۔ لہٰذا اب اس فرسودہ نظام کے خلاف ہمیں ایک سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کی ضرورت ہے۔

خاندان وہ بنیادی اکائی بھی ہے جہاں صنفی تقسیمِ محنت کے تحت مرد کو گھر سے باہر پیداواری کام کا ذمہ ملتا ہے تو عورت کو تولیدی کام، یعنی گھر بار کی دیکھ بھال، کھانا پکانا، کپڑے دھونا، اطفال کی دیکھ بھال وغیرہ جیسے کاموں کی ذمہ داری ملتی ہے۔ اس جبری تقسیمِ محنت کی سرمایہ داری کو ضرورت ہے کہ مزدور اور نچلے طبقات کی عورت پر ان کاموں کا بوجھ لادا جا سکے جتاکہ ریاست ان ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جائے۔ غرض یہ کہ تولیدی کاموں کو گھروں کی حدود میں دھکیلنا بنیادی سوال ہے، نہ کہ مرد اور عورت کے درمیان کی یہ انفرادی لڑائی کہ گھر کے کام مرد یا عورت میں سے کون کرے گا۔ گھر کے کام مرد کرے یا عورت، ہم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ “گھر” کے کام کیوں ہیں۔ ریاست، حکمران طبقہ اور ان کا میڈیا ایسے دکھاتے ہیں جیسے سماج ہمیشہ سے ایسا ہی تھا اور یہ کام تو شروعات سے ہی گھر کی نجی حدود میں ہوتے آئے ہیں اور کوئی متبادل نظام ممکن نہیں۔ یہ حقیقت کے برخلاف ہے کیونکہ ایسے متبادل کی سب سے بہترین مثال عظیم اکتوبر انقلاب کے بعد کی جانے والی سماجی تبدیلیاں ہیں جہاں عورت کی صرف لفاظی کی حد تک نہیں بلکہ حقیقی آزادی کی راہ ہموار کی گئی تھی۔ عوامی باورچی خانے، عوامی لانڈریاں اور بچوں کی دیکھ بھال کے لئے معیاری دار الاطفال فراہم کئے گئے۔ یہ وہ اقدامات تھے جنہوں نے حقیقی معنوں میں عورت کو آزادی دی کیونکہ انہوں نے تولیدی کام کو گھر کی نجی حدود سے باہر نکال کر سوشلائز کیا اور طبقہ کے آدھے حصے کو اپنی atomised شکل سے آزادی دلائی۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جبری صنفی تقسیمِ محنت کا مسئلہ اکثریت خواتین، یعنی محنت کش اور نچلے درمیانے طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین کا مجموعی مسئلہ ہے۔ اس کے برعکس حکمران اور مراعات یافتہ طبقات کا یہ مسئلہ اس طرح ہے ہی نہیں کیونکہ ان کے گھروں میں ملازمین جو درحقیقت غلاموں کی حیثیت رکھتے ہیں، کی کوئی کمی نہیں۔ تولیدی کام بورژوا خاندان میں بھی گھر کی نجی حدود کا مسئلہ ہے مگر اس کام کا ذمہ استحصال زدہ نوکر چاکر اٹھاتے ہیں۔ ان سب باتوں سے واضح ہے کہ مسئلہ کی جڑ یعنی نجی ملکیت حکمران طبقہ کی عورت کے مفادات اور اس کی طبقاتی حیثیت سے جڑی ہے۔ جب تک حکمران اور پیٹی بورژوا طبقہ کی عورتیں اپنے طبقاتی مفادات کے خلاف شعوری لڑائی لڑنے کے لئے تیار نہیں ہو جاتیں، مزدور طبقہ کی عورت ان پر بھروسہ نہیں کر سکتی۔ مزدور طبقہ کی عورت کا مفاد حکمران طبقہ کی مراعات اور نجی ملکیت کے خاتمے میں ہے۔ یہ مفاد حکمران طبقہ کی عورت کے مفادات سے براہ راست تصادم میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ خواتین کی تحریکوں پر حکمران اور مڈل کلاس طبقات کی خواتین کے غلبہ کے باعث نجی ملکیت پر کبھی بات نہیں ہوتی۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عورتوں کی اکثریت کی آزادی کی لڑائی صرف سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد میں ہی ممکن ہے کیونکہ ہم وہ سیاسی پروگرام رکھتے ہیں جو مسئلہ کی جڑ یعنی نجی ملکیت کو کاٹ پھینکنے کی حکمت عملی فراہم کرتے ہیں۔ وہ تمام خواتین و حضرات جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اکثریت خواتین کی حقیقی آزادی کے لئے مل کر محنت کش طبقہ کی آزادانہ سیاست کرنی چاہیے، ہم ان تمام ساتھیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد میں جڑیں۔ سرمایہ داری کی موت میں ہی ہم سب کی حیات ہے