کراچی میں مسماریوں کے خلاف اعلانِ جنگ: محنت کشوں کے گھر ڈھانا بند کرو

Posted by:

|

On:

|

سوشلسٹ ریزسٹنس رپورٹ

کراچی: “جب اسرائیل فلسطینیوں کی آبادیاں ڈھاتا ہے اور قبضہ کرتا ہے اور بھارت جب کشمیریوں پر مظالم ڈھاتا ہے اور قبضہ گیر ہوتا ہے تو ہماری ریاست بہت آواز اٹھاتی ہے۔ مگر آپ (پاکستانی ریاست) بھی تو ہمارے ساتھ وہی طرزِ سیاست اور وہی طرزِ عمل کر رہے ہیں۔ ہماری آبادیاں ہمارے مکانات ڈھا کر ان پر قبضے کر رہے ہیں، ہمیں بےدخل کر رہے ہیں ہماری زمینوں سے۔ تو آپ لوگوں میں اور اسرائیل اور بھارت میں کیا فرق ہے؟ آپ بھی انہی کی طرح ایک ظالم ریاست ہیں۔”

یہ الفاظ گجر نالہ و اورنگی نالہ کے متاثرین کے احتجاج کے دوران ایک متاثر شخص  نے شرکاء سے خطاب کے دوران کہے۔ کراچی بچاؤ تحریک نے 21 مارچ بروز اتوار کو کراچی پریس کلب کے سامنے گجر نالہ اور اورنگی نالہ میں محنت کشوں اور شہری غرباء کی اپنے گھروں سے بےدخلی اور تجاوزات کے نام پر ان کے گھروں کی مسماری کے خلاف زبردست احتجاج منعقد کیا۔  500 افراد نے احتجاج میں شرکت کی جس میں علاقہ مکینوں کے علاوہ بائیں بازو، خواتین اور طلباء کی تنظیموں سے وابستہ افراد بھی شامل تھے۔

متاثرین نے اپنے مسائل پر بھرپور آواز اٹھائی اور حکمران طبقہ کی جماعتوں میں عدم اعتماد کا کھل کر اظہار کیا۔ انہوں نے بورژوا میڈیا کے غلیظ کردار پر بھی بات رکھی کہ کس طرح یہ میڈیا صرف حکمرانوں کے مسائل میں الجھا رہتا ہے اور غریب محنت کش عوام کے مسائل کی جانب دیکھنے کی اسے کوئی فرصت میسر نہیں ہے۔ احتجاج کے دوران بڑی تعداد میں محمود آباد کے رہائشی بھی اپنے گھروں کی مسماری کے خلاف پہنچ گئے اور تمام متاثرین نے پھر مل کر احتجاج کیا۔ متاثرین کا حکومت سے بنیادی مطالبہ تھا کہ” گھر کے بدلے گھر دو، ورنہ کرسی چھوڑ دو”۔

منتظمین اور مظاہرین نے وفاقی و صوبائی حکومت کے خلاف بھرپور نعرے لگائے اور اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا۔ “ہم لے کے رہیں گے، اپنی چھت!”، “ہم شہر بچانے نکلے ہیں، آو ہمارے ساتھ چلو!”، “تیز ہو تیز ہو، جبری مسماری کے خلاف، جدوجہد تیز ہو!” جیسے نعرے شرکاء میں بہت مقبول تھے۔

گجر نالہ اور اورنگی نالہ کے متاثرین نے بڑی تعداد میں احتجاج میں شرکت کر کے ثابت کیا کہ وہ اپنے حقوق کی جدوجہد کرنے کیلئے ہر ممکن اقدام اٹھائیں گے۔ متاثرین میں خواتین کی بہت کثیر تعداد شامل تھی جنہوں نے تقاریر کیں اور حکومت کو للکارا۔ انہوں نے کہا کہ ان کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں یعنی پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں نے شدید مایوس کیا، ووٹ لینے کیلئے انکی آبادیوں کے چکر لگاتے رہے اور مشکل وقت میں پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔

مقررین میں کچھ خواجہ سرا خواتین بھی موجود تھیں جن کا کہنا تھا کہ ہم ویسے ہی سماج میں دھتکارے ہوئے لوگ ہیں جنہیں کوئی قبول نہیں کرتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ روزگار یا تحفظ دینا تو دور کی بات، حکومت اب ان سے انکی چھت بھی چھین رہی ہے۔

احتجاج کے دوران معصوم بچوں نے بھی ہاتھوں میں پلے کارڈز تھامے ہوئے تھے جن پر “گھر کے بدلے گھر دو” اور “کے ڈی اے گھر کے بدلے 90 ہزار نا منظور نا منظور” کے نعرے درج تھے۔

احتجاج میں متاثرین کی مقامی قیادت نے بھی خطاب کیا جس میں انہوں نے ریاست سے شکوہ کیا کہ انکو روٹی کپڑا مکان تو میسر نہیں آیا لیکن جو ایک ریگولرائزڈ یا لیز شدہ کچا مکان تھا وہ بھی ریاست ان سے چھین رہی ہے اور انکو کوئی متبادل جگہ بھی فراہم نہیں کر رہی۔ انہوں نے مزید بیان کیا کہ سرکار کی جانب سے انہیں باقاعدہ ڈرا دھمکا کر خوف میں مبتلا کر کے مسماری مہم چلائی جارہی ہے اور ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے کہ متاثرین کی آواز کو دبایا جاسکے جس کے لئے پولیس اور رینجرز سے بھی مدد طلب کی جارہی ہے۔

احتجاج کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے چند افراد بینظیر بھٹو کی تصاویر کے جھنڈے لئے پراڈو گاڑی میں آئے اور اپنی جماعت کے گانے بجانا شروع کر دیئے تو متاثرہ خواتین نے ان سے اظہارِ برات کیا اور انہیں لعنتیں دکھائی۔ اس پر پیپلز پارٹی کے کارکنان نے خواتین و دیگر شرکاء سے بدتمیزی شروع کر دی، جس پر ان کو شرکاء نے خوب سبق سنایا اور انہیں اپنے احتجاج سے بھگادیا۔

تمام مقررین کے خطابات سے واضح تھا کہ محنت کش و غریب عوام کو موجودہ حکومتوں سے نہ کوئی امید ہے نہ ان میں کسی قسم کے کوئی ابہام کی اب مزید کوئی گنجائش رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاست و نظام کے بحران کے نتیجہ میں جنم لینے والا ریاستی جبر وہ شدت اختیار کر گیا ہے کہ اب اس جبر کی لہر سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔ ورلڈ بینک اور کنسٹرکشن کمپنیوں کی ایما پر نت نئے میگا پراجکٹ تعمیر  کرنے کے لئے پاکستان کی سرمایہ دارانہ ریاست محنت کشوں کو ان کے گھروں سے بےدخل کر رہی ہے۔ منافع اور قبضہ کی یہ حوس دیگر علاقوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ کس طرح گوادر کو مقامی آبادی کے لئے باڑ لگا کر بند کر کے مقامی و سامراجی اشرافیہ کے لئے سیاحتی مرکز بنایا گیا ہے، وہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ریاستی جبر کے زور پر نہتی مقامی آبادیوں کی یوں بےدخلیاں فلسطین و کشمیر میں ہونے والے مظالم کی یاد دلاتی ہیں۔ اس وقت عدالتِ عظمیٰ کے احکامات کو بنیاد بنا کر ریاست گجر نالہ و اورنگی نالہ کے اطراف میں بسے مکانوں کی مسماری کی مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ مگر جیسا کہ کامریڈ فضاء نے بھی بیان کیا، بورژوا عدالت کے احکامات بھی واضح طور پر کہتے ہیں کہ محنت کشوں کو بےدخل کرنے سے قبل انہیں متبادل رہائش فراہم کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ کامریڈ فضاء نے مزید یاد دلایا کہ کس طرح متبادل رہائش کے جھوٹے وعدوں پر کراچی سرکولر ریلوے کے متاثرین تین سال سے کھلے آسمان تلے زندگی بسر کر رہے ہیں کیونکہ انہیں اب تک کوئی متبادل رہائش فراہم نہیں کی گئی۔ تف ہے ایسی ریاست پر جس کو صرف تباہی و بربادی کی ذمہ داریاں یاد رہتی ہیں!

انقلابی سوشلسٹ موومنٹ حکومت کی سامراجی دلالی اور بلڈر مافیہ کے سرمایہ داروں کے منصوبوں کے لئے محنت کشوں کی اپنے گھروں سے بےدخلی کے قابلِ نفرت عمل کی بھرپور مذمت کرتی ہے اور علاقہ مکینوں کے ساتھ تحریک میں شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ گجر نالہ و اورنگی نالہ کے متاثرین اس وقت اپنے اوپر ہونے والے جبر کے خلاف حرکت میں آ رہے ہیں اور موجودہ نظام کی پارٹیوں میں عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں، جو طبقاتی جڑت کے لئے ایک خوش آئند عمل ہے۔ جس طرح مال بنانے کے لئے ریاست اس خطہ کی زمین کے ہر ٹکڑے کو بیچنے کے لئے تیار ہے اس سے اس ریاست کا عوام دشمن کردار بہت واضح ہے۔ جس طرح محمود آباد کے رہائشیوں کو بھی 21 مارچ کے احتجاج میں شامل کیا گیا، اسی طرح اب یہ جڑت بڑے پیمانہ پر تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ گوادر سے لے کر ملتان تک، ملتان سے لے کر گلگت بلتستان تک، ہر طرف سامراجی دلالی اور بلڈر مافیہ کی جیبیں گرم کرنے کا کھیل تماشہ اپنی پوری قوت کے ساتھ جاری ہے۔ مگر حکمرانوں کی جیبیں گرم کرنے کی قیمت ہمیشہ محنت کشوں اور شہری و دیہی غرباء سے ہی وصول کی جاتی ہیں لہٰذا اب یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ ان نااہل، عوام دشمن حکمرانوں کے عزائم کے خلاف مل کر جدوجہد کی جائے۔ ہم پاکستان بھر کی ٹریڈ یونینوں، بائیں بازو، خواتین، صنفی اقلیتوں و طلباء کی تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ ایسی مشترکہ جدوجہد کی تعمیر کا حصہ بنیں تاکہ جومشترکہ دشمن جو ہم سب پر حملہ آور ہے اس کا مل کر مقابلہ کیا جا سکے۔

گجر نالہ و اورنگی نالہ کے متاثرین کے جیسے بےشمار متاثرین ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان سب کو اپنے حقوق کی جدوجہد کے لئے محلوں کی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دینی چاہئے۔ان کمیٹیوں کو آپس میں روابط قائم رکھتے ہوئے مشترکہ جدوجہد منظم کرنی چاہئے تاکہ محنت کشوں کی مشترکہ جدوجہد کے متحدہ محاذ کی جانب حقیقی اقدام اٹھائے جا سکیں۔

-گجر نالہ و اورنگی نالہ کے اطراف میں بسی آبادیوں کی مسماریاں فی الفور روکی جائیں

-متبادل رہائش کی فراہمی کے بنا ہر قسم کی بےدخلی نامنظور

-مقامی آبادیوں کی رضا کے بغیر ان کی زمینوں کے حوالہ سے کئے گئے تمام عالمی و مقامی معاہدے فوری طور پر منسوخ کئے جائیں

Posted by

in