انقلابی سوشلسٹ موومنٹ
جانی خیل میں پشتون چارنوجوانوں کی لاشیں رکھ کر سات دن تک دھرنے پر بیٹھے رہے اور اب انہوں نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ شروع کردیاہے جس کے راستے میں حکومت رکاوٹیں ڈال رہی ہے اور انہیں لانگ مارچ سے روکا جارہا ہے۔ان چار نوجوانوں کو چند روز قبل اغواء کر کے قتل گیاتھا جب وہ شکار کے لیے گئے تھے۔ان کی عمریں پندرہ سے سترہ سال کے درمیان تھیں۔
مظاہرین کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ان کے قاتلوں کو سزا دی جائے اور علاقے میں امن کے نام نہاد ذمہ داروں کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا جائے اور گڈ اور بیڈ طالبان کی سرپرستی ختم کی جائے کیونکہ ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے آئے روز قتل ہوتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے علاقے کے لوگوں میں شدید غم و غصہ ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ انتظامیہ ان کے مطالبات کو تسلیم کرئے۔
اس جائز مطالبے کے باوجود لیکٹرانک میڈیا میں دھرنے کے حوالے سے مکمل بلیک آوٹ ہے اور ریاستی اداروں کی طرف سے میڈیا کو ادھر جانے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس واقع کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تھی لیکن ان کو گڈ طالبان کے نام پر مکمل طور پر ریاستی تحفظ اور پروٹوکول دیا جارہا ہے یعنی ریاست اپنے مفادات کی خاطر دیہی غریب کے قتل عام کو روکنے سے قاصر ہے اور ان کے قاتلوں کو سزا بھی نہیں دینا چاہتی ہے۔
دہشت مخالف جنگ کی سب سے بھاری قیمت پشتون قوم کے محنت کشوں اور دیہی غریبوں نے ادا کی ہے اور وہ اب تک اسے برداشت کررہے ہیں حالانکہ انہوں نے پی ٹی ایم کی صورت میں ایک طاقتور تحریک کو بھی جنم دیا ہے جو امن اور آئین پر عمل کرنے کا مطالبہ کرتی ہے لیکن امن کے ان مطالبات پر علی وزیر قید ہے اور پی ٹی ایم کے دیگر کارکنان کو مسلسل خوف اور دہشت میں رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن پشتون قوم مسلسل اس جبر کے خلاف اور امن کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔
یہ معاملات صرف پشتونوں تک ہی محدود نہیں ہیں ایسے ہی اس سال کے آغاز میں ہزارہ کان کنوں کا قتل عام کیا گیا اور وہ بھی اپنے پیاروں کی لاشیں رکھ کر سڑکوں پر بیٹھے رہے مگر ان سے بات کرنے اور دکھ کو کم کرنے کی بجائے وزیر اعظم شرائط عائد کرتے رہے تھے۔پنجاب میں ساہیوال کے واقع میں جو افسران ملوث تھے ان میں سے ایک کو ترقی دئے دی گی ہے۔ر یاست کے لیے انسانی جان کے تقدس سے زیادہ عہدوں کی اہمیت ہے تاکہ لوگوں میں ریاست کا خوف قائم رہے اسی طرح یہ اپنی حکمرانی برقرار رکھ سکتے ہیں۔
اس جبرو ظلم اوراستحصال کے باوجود محنت کش اور شہری و دیہی غریب اس صورتحال کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہ مسلسل جدوجہد میں آرہے ہیں۔یہ صورتحال حکومت کے لیے پریشان کن ہے جو سرمایہ کے مفاد میں معاملات طے کررہی ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کے دوبارہ آغاز کے بعد ایک بڑے حملے کی تیاری کررہی ہے وہ ان حالات میں کوئی کمزوری نہیں دیکھانا چاہتی۔اس لیے وہ مظلوم سے مذاکرات اور ان کے مطالبات کو تسلیم کرنے کی بجائے ان کو خوفزدہ کررہی ہے۔
پشاور کے مقامی کورٹ کی طرف سے عورت مارچ کے خلاف مقدمے کا حکم،شورکوٹ میں ایک اہل تشیع کا سرعام قتل اور ملک میں بڑھتے ہوئے ریپ اور اس کے بعدقتل کے واقعات اس بات کا اظہار ہیں کہ سماج کی ٹوٹ پھوٹ اپنی انتہاء پرہے اور ریاست خوف کو اس سماج میں پیدا کرکے ہر طرح کی مزاحمت کو روکنا چاہتی ہے اور اگر اس کے باجود بھی مزاحمت جاری رہتی ہے تو اس کی پالیسیوں کی وجہ سے سماج میں ایسی رجعتی فورسز موجود ہیں جن کو اپنے حق میں جدوجہد کرنے والوں کے خلاف استعمال کرئے گی۔
انقلابی سوشلسٹ موومنٹ جانی خیل کے دھرنے کے مطالبات اور اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی مکمل حمایت کرتی ہے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ لیٖفٹ،ٹریڈ یونینز،عورتوں اور طلباء کی تنظیموں کو اس جبر کے خلاف جانی خیل کے لانگ مارچ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ہمیں ملک بھر میں جاری مختلف تحریکوں کو جوڑنے کی ضرورت ہے جو اپنے حقوق کی جدوجہد کررہی ہیں یوں ہی ہم مل کراس ریاست کے جبر اور حملوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔