رپورٹ(سوشلسٹ رزیزٹنس)
اسرائیل کی بمباری اور قتل عام کے خلاف دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے مظاہرے ہوئے۔ یہ مظاہرے بہت جاندار اور پرجوش تھے اور ان کو منظم کرنے میں روایتی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا کردار نہ ہونے کے برابر تھا۔ کسی شہر میں یہ مظاہرے مختلف کالجوں کے طلباء نے منظم کئے اور کہیں سوشل میڈیا پر کال کی وجہ سے ہوئے۔ ان احتجاجات کو منظم کرنے میں طلباء اور دیگر پرتوں کے علاوہ سوشلسٹ اور ترقی پسند نوجوان بھی شامل ہوئے۔ زیادہ تر مظاہرے پاکستان فار فلسطین یا اس سے ملتے جلتے ناموں کے بینر تلے ہوئے۔
19مئی کو پاکستان فار فلسطین کے تحت کراچی میں ہونے والے مظاہرہ میں دس ہزار کے قریب لوگ شریک ہوئے۔ اس کو بنیادی طور پر کراچی کے مختلف اسکولوں، کالجوں اور جامعات کے طلباء نے منظم کیا۔ اس میں مزدور، عورتیں اور مختلف تحریکوں سے منسلک لوگ بھی شریک ہوئے۔ ایم کیوایم کے فاروق ستار اور دیگر نے اس احتجاج کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جس کی مظاہرہ کے منتظمین کی طرف سے مذمت بھی ہوئی۔
اس مظاہرہ کے نعرے بہت ریڈیکل تھے اور ایک سیکولر اور سوشلسٹ نقطہ نظر کو سامنے لارہے تھے اس میں شامل مختلف مقررین نے اسرائیل اور سامراج کے گٹھ جوڑ کی نشاندہی اور اس کی مخالفت بھی کی اور اس کے ساتھ انہوں نے پاکستان میں مظلوم اقوام، اقلیتوں اور خواجہ سراؤں پر جبر کے حوالہ سے بھی بات کی۔ انہوں نے کہا یہاں بھی مسماریاں ہورہی ہیں اور بحریہ ٹاؤن زمینیں چھین رہا ہے۔ لوگ لاپتہ ہوتے ہیں اور ان کی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کے لیے ہماری جدوجہد ہماری اپنی جدوجہد ہے کیونکہ ایک مشترکہ جدوجہد سے ہی ہم سامراج اور سرمایہ داری نظام کی جنگ، مسماریوں اور بیدخلیوں سے چھٹکارہ حاصل کرسکتے ہیں۔اس مظاہرے میں ہماری کامریڈ حنا طارق نے سوشلسٹ نقطہ نظر سے تقریر کی جس کی وجہ سے دائیں بازو کے صحافی شدید غصہ میں آگئے اور انہوں نے حنا طارق کو اسٹیج سے ہٹایا، ہراساں کیا اور اس پر حملہ کرنے کی بھی کوشش کی۔ ہم ان عوامل کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ ان عوامل نے واضح کیا ہے کہ یہ لوگ درحقیقت ظلم کے خلاف آواز اٹھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے اور بس فلسطین کے مسئلہ کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
کراچی میں 20 مئی کو بھی ایک مظاہرہ ہوا جس کو لیفٹ کی تنظیموں کے ایکٹوسٹوں اور دیگر ترقی پسند کارکنان نے منظم کیا۔ اس میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔ انقلابی سوشلسٹ موومنٹ کی طرف سے کامریڈ تارہ نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح اسرائیل دہشت گردی کررہا ہے اسی طرح یہاں گجر نالہ پر بھی مسماریاں ہو رہی ہیں۔ اسرائیل دہشت گرد ہے لیکن حماس کو دہشت گرد بنا کر پیش کیا جارہا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ہمیں صیہونی ریاست کو شکست دینے کے لیے ایک عالمی یکجہتی کمپین اور انقلاب کی ضرورت ہے جس کے ذریعہ ایک ازاد، جمہوری اور سیکولر فلسطینی ریاست قائم کی جائے جو سوشلسٹ مشرق وسطیٰ کا حصہ ہو۔
فیصل آباد میں اسکولوں اورکالجوں کے طلباء نے احتجاج کو منظم کیا شرکاء کی تعداد1500سے2000کے درمیان تھی۔اس احتجاج میں لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی اس کے علاوہ خواجہ سراء،کرسچین اور مزدور بھی شریک ہوئے۔ اس مظاہرے کے شرکاء کے نعرے بھی ایک سیکولر نقطہ نظر لیئے ہوئے تھے۔ انقلابی سوشلسٹ کے علی سجاد نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ کسی مذہب کی لڑائی نہیں ہے بلکہ صہیونیت کے خلاف لڑائی ہے جس میں یہودی بھی شامل ہیں اور ایک عالمی عوامی تحریک کے ذریعے ہی ہم اسرائیل کو شکست دے سکتے ہیں۔ایک عورت نے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں یہاں فلسطین کی عورتوں کے لیے آئی ہوں مجھے اندازہ ہے کہ عورت کے ہمارے سماج میں کیا مسائل ہیں اور جنگ میں تو ان کے مسائل کئی گنا زیادہ ہوجاتے ہیں۔ مظاہرین نے اسرائیل کے خلاف بھرپور نعرہ بازی کی اور وہ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی بھی کررہے تھے۔ اس مظاہرے کو منظم کرنے میں ترقی پسند اور سوشلسٹ نوجوانوں نے اہم کردار ادا کیا۔منتظمین میں چند ایک کا تعلق جمعیت سے بھی تھا لیکن ان کی تقریروں کا عام مظاہرین سے کوئی تعلق نہیں بن رہا تھا۔تحریک انصاف کے لوگوں نے بھی اس احتجاج کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی لیکن مظاہرے کے منتظمین نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا اور ان کے بینرز ہٹوا دیئے۔
اسی طرح اسلام آباد میں بھی اسی نوعیت کے مظاہرے ہوئے جس کو منظم کرنے میں سیکولر اور ترقی پسند قوتوں نے اہم کردار ادا کیا۔ٹی وی اینکر عاصمہ شیرازی یہ کہنے پر مجبور ہوئی کہ آج پاکستان بھر میں ترقی پسند قوتیں فلسطین پر احتجاج کررہی ہیں اور مذہبی جماعتیں کہیں نظر نہیں آرہی ہیں۔
لاہور میں بھی فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے پریس کلب اور لبرٹی چوک میں مختلف مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہروں میں بڑی تعداد میں نوجوان شریک ہوئے۔ باقی شہروں کی طرح یہاں بھی نعرے واضح طور پر ایک سیکولر نقطہ نظر لیئے ہوئے تھے۔ پریس کلب کے باہر ہونے والے ایک مظاہرے میں جس کی کال انسٹاگرام پر دی گی تھی اس ایک کال پر ہزاروں کی تعداد میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس احتجاج میں شامل ہوئے۔ اس احتجاج کا عمومی رنگ سیکولر ہی تھا۔ اسٹیج سے کچھ منتظمین نے اسے مذہبی شکل دینے کی کوشش کی لیکن اس کا نیچے جاری احتجاج سے کوئی تعلق نہیں بن رہا تھا۔ جب تحریک انصاف کے کچھ لوگوں کو اسٹیج فراہم کیا گیا تو نیچے سے مظاہرین نے اس کے خلاف شدید احتجاج کیا اور جس کے بعد منتظمین اور خود تحریک انصاف کے ایک رکن نے اسٹیج سے کہا کہ ہمارا یہ مظاہرہ امریکن کونسلیٹ کے سامنے تھا اس لیے کوئی سیاسی راہنماء اس میں شریک نہیں ہوا اور وہ ہمیں کہتے رہے کہ اسے لبرٹی چوک میں رکھ لو۔ اس کے علاوہ مومن ثاقب نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں مل کر فلسطینیوں کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی اور یہ کہ یہ انسانیت کی لڑائی ہے جس میں یہودی بھی اسرائیل کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں۔ ہمیں صیہونیت مخالف نقطہ نظر تو رکھنا چاہیے لیکن اینٹی سیمٹک رویہ کی مخالفت کرنی چاہیے اور ایک عالمی تحریک تعمیر کرکے ہی ہم صیہونیت اور اسرائیل کے خلاف لڑسکتے ہیں۔ اس تقریر کو مظاہرین کی طرف سے کافی پذیرائی ملی۔ اس کے بعد منتظمین بھی اسٹیج سے نیچے آگئے اور انہوں نے امریکی کونسلیٹ کے سامنے دھرنا دیا۔
شہروں میں ہونے والے مظاہروں میں نوجوان خواتین و حضرات کی بڑی تعداد شریک ہوئی اور ان کے پلے کارڈ اور نعرے واضح پر ایک سیکولر نقطہ نظر لیئے ہوئے تھے۔ بہت سارے شہروں میں ان مظاہروں کو منظم کرنے میں ان نوجوانوں نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ان مظاہروں میں زیادہ تر پلے کارڈز اور بینرز پر وہی نعرے تھے جو نعرے برطانیہ، جرمنی اور امریکہ میں لگائے جا رہے تھے۔ یہ بہت واضح ہے کہ پاکستان میں فلسطین کے حق میں جو احتجاجات منظم ہوئے یہ فلسطین کے حوالہ سے عالمی سطح پرجنم لینے والی تحریک سے متاثر تھے۔ یہ یقینی طور پر بہت اہم بات ہے کہ پاکستان میں روایتی سیاسی مذہبی جماعتوں کی بجائے نوجوان سامنے آئے ہیں جو ایک سیکولر اور ترقی پسند نقطہ نظر لیئے ہوئے ہیں۔ انقلابی سوشلسٹوں کو جہاں ایسی تحریکوں میں مداخلت کرنی چاہیے ۔وہاں ایک انقلابی نقطہ نظر کی بنیاد پر فلسطین کے حق میں تحریک کو تعمیر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔