سندھ حکومت ڈاؤ طلباء کے کیمپ آنے پر مجبور؛ فتح تک جدوجہد

Posted by:

|

On:

|

,

سوشلسٹ ریزسٹنس رپورٹ

ڈاؤ بوائز ہاسٹل کے نڈر طلباء کی مہینوں پر محیط جدوجہد کے نتیجہ میں سندھ حکومت آج پریس کلب کے باہر کیمپ پر آنے پر مجبور ہوئی۔ وزیر تعلیم نے یقین دہانی کرائی کہ ہاسٹل کا معاملہ دو ہفتوں میں حل کر دیا جائے گا، جس کے بعد طلباء نے اپنی بھوک ہڑتال ختم کر دی۔ اس وقت تک بھی دو اور ساتھیوں کی حالت بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی اور انہیں اسپتال لے جانا پڑا۔

طلباء کے قائد عبدالکریم نے اعلان کیا ہے کہ وہ دو ہفتوں تک حکومت کو وقت دیں گے اور پھر حکومت مسئلہ کے حل پر جو بھی آفر کرتی ہے اس پر آپسی مشاورت کریں گے۔ انہوں نے مزید یہ کہا اگر مسئلہ حل نہیں ہوا تو طلباء نئے سرے سے دو ہفتوں بعد احتجاج شروع کر دیں گے۔

ٹریڈ یونین اشرافیہ اور این جی او سول سوسائٹی کے نمائندوں نے سعید غنی کی آمد کو یوں پیش کیا جیسے وہ سعید غنی کو یہاں اپنے رابطوں کے زور پر لائے ہوں۔ درحقیقت یہ طلباء کی مہینوں پر محیط عظیم جدوجہد تھی جس کے نتیجہ میں آج سندھ حکومت مجبور ہوئی کیمپ پر آنے پر۔ یہ طلباء نہ بکے، نہ جھکے، اپنے محاذ پر ڈٹے رہے اور لڑتے رہے۔ جو بھی کچھ اب حکومت سے مذاکرات کے نتیجہ میں حاصل ہوگا وہ طلباء کی جدوجہد کا ثمر ہوگا۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ طلباء کا بھوک ہڑتال ختم کرنے کا فیصلہ درست ہے مگر ساتھ ہی ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جدوجہد جاری رکھنا ہی ہماری فتح کی ضمانت ہے۔ اگر طلباء کو کچھ بھی حاصل ہوا ہے تو وہ اپنی جدوجہد کے نتیجہ میں ہوا ہے اور آگے بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس حکومت سے انصاف کی امید نہیں لگائی جا سکتی۔ اس وقت جامعہ کراچی، بحریہ یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں میں طلباء حرکت میں آ رہے ہیں۔ نظام کا بحران اور حکمران طبقہ کے حملے اس قدر شدت اختیار کر گئے ہیں کہ نوجوانوں میں ان کے خلاف شدید غم و غصہ پنپ رہا ہے۔ ان احتجاجات کو ایک تحریک کی شکل میں منظم کیا جا سکتا ہے اگر دیگر طلباء ایک دوسرے کی تحریکوں کے ساتھ یکجہتی کرتے ہیں اور عمل کے میدان میں مل کر حکمران طبقہ کے حملوں کے خلاف لڑائی لڑتے ہیں۔ ہم اس تاریخی موڑ پر ڈاؤ اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلباء سے اپیل کرتے ہیں کہ اب اپنے اداروں میں اپنی آزادانہ کمیٹیاں تشکیل دیں اور یہ کمیٹیاں پھر آپس میں کوآرڈینیشن کے ذریعہ منظم ایکشن پلان کریں۔ یوں اس تحریک کو پھر دوسرے شہروں اور پورے ملک میں پھیلایا جا سکتا ہے۔

ڈاؤ کے طلباء کی جدوجہد اور اس جدوجہد کے ذریعہ سندھ وزیر تعلیم کو کیمپ آنے پر مجبور کرنے پر ان کو ہم سرخ سلام پیش کرتے ہیں۔ یہ جدوجہد جاری رہے گی اور تمام انسان دوست، ترقی پسند اور سوشلسٹ ساتھی اس جدوجہد میں طلباء کے خانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔ آخری فتح ہماری ہوگی!