کورونا وائرس،ہیلتھ سسٹم کی ناکامی اور مودی سرکار کی طبقاتی ترجیحات

Posted by:

|

On:

|

,

تحریر:عرفان خان
بھارت میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کے باعث گذشتہ روز چار لاکھ 12 ہزار سے زیادہ افراد متاثر ہوئے جبکہ 3900 سے زیادہ افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔یہ ایک دن میں ہونے سب سے زیادہ اموات ہیں اور کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی شرح ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے اب تک 2,29,573اموات ہوچکی ہیں۔اس اضافہ کے ساتھ اس وقت کُل متاثرہ لوگوں کی تعداد 2,10,41,370ہوگی ہے۔بھارت میں مئی کے دوسرے ہفتے میں آٹھ سے نو لاکھ یومیہ کیسز کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر اس وقت کورونا وائرس کے کل مصدقہ متاثرین کی تعداد 15کروڑ سے زیادہ ہے جبکہ اس عالمی وبا سے 32 لاکھ سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔کورونا وائرس اموات کے معاملے میں امریکہ اور برازیل کے بعد اب بھارت کا نمبر ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق بھارت اموات کے اعداد و شمار کو دبا رہا ہے۔اسی طرح کی اطلاعات بہت سارے آزادبھارتی صحافیوں کی طرف سے بھی آرہی ہیں۔ حکومت کے ریکارڈ کے مطابق 29 اپریل کو موت کی شرح 1.11 فیصدرہی ہے۔یہ اعداد و شمار کی درستگی پر شکوک پیدا کرتے ہیں۔جتندر سنگھ جو شمشان گھاٹ پر چیتائیں جلاتے ہیں انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ’’کورونا وائرس کے باعث ہلاک ہونے والوں کے سرکاری اعداد و شمار میں ان لوگوں کو شامل نہیں کیا جاتاہے جو گھروں پر ہی وبا کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کو تو موت سے پہلے کورونا ٹیسٹ کی نتائج بھی نہیں ملتے ہیں۔
ایک خوفناک صورتحال نے بھارت کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اس کی وجہ مودی سرکار کی کورونا وائرس کے حوالے سے مکمل عدم توجہی اور نااہلی ہے۔عام لوگ ہسپتالوں میں آکسیجن اور بیڈ نہ ملنے کی وجہ سے سڑکوں،گاڑیوں اور رکشوں میں تڑپتے ہوئے موت کے منہ میں جارہے ہیں۔کورونا وائرس کے حوالے سے مودی حکومت کی عدم موجودگی نے عوام کو مایوس اورسخت غصے میں مبتلا کردیا ہے اورہر طرف افراتفری کا راج ہے۔ہیلتھ کا نظام مکمل طور پر ناکام ہوگیا ہے اور حکومت کہیں نظر نہیں آرہی ہے بلکہ مودی کے اپنے حلقہ کی صورتحال بہت خراب ہے اور وہاں نہ ہی حکومت اور نہ ہی بی جے پی کے نمائندے عوام کی کوئی راہنمائی کررہے ہیں۔جب اپریل میں حالات خراب ہورہے تھے اور طبی ماہرین خطرے کا اظہار کررہے تھے اس وقت مودی کامیابی کا اعلان کررہا تھا کہ ہم نے کورونا وائرس پر قابو پالیا ہے۔اسی طرح بجائے ہیلتھ سسٹم پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے اس وقت مودی اور اس کے وزراء بنگال کے ریاستی الیکشن کی ریلیوں میں مشغول تھے اور وہ ہر قیمت پر اسے جیت کراپنا تسلط مضبوط بنانا چاہتے تھے۔ایسے حالات میں مارکیٹ کی منافع خوری نے صورتحال کو مزید ابدتر بنا رہی ہے۔ محنت کشوں اور غریب عوام کی صورتحال بہت خراب ہے اور عام لوگ ازخود ایک دوسرے کی مدد کے ذریعے اس قاتل وبا سے بچنے کی کوشش کررہے ہیں۔
اشرافیہ اور درمیانے طبقے کوجو ذات پات، مضبوط نیٹ ورک اور اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ان کو اسپتال کے بیڈ، دوائیں، بلڈ پلازما اور آکسیجن سلنڈر حاصل ہورہے ہیں۔ہیلتھ سسٹم کی مکمل ناکامی کے باوجود یہ لوگ موجود وسائل پر قابض ہوگے ہیں اور اسے اپنے درمیان تقسیم کررہے ہیں۔اس کے ساتھ اشرافیہ کی ایک بڑی تعداد یا تو اپنے بنگلوں میں محدود ہوگی ہے یا وہ ملک سے بھاگ رہے ہیں۔
دلت،قبائلی،اقلیتوں اور محنت کش طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو دستیاب وسائل میں سے بھی کچھ نہیں مل رہا ہے اور نہ ہی حکومت اس حوالے سے کوئی کردار ادا کررہی ہے۔ان کا اپنا بھی کوئی نیٹ ورک یا طبقاتی اثر ورسوخ نہیں جو انہیں بیڈ،آکسیجن یا دوائیں لینے میں مدد فراہم کرسکتاہو۔اس وجہ سے ایسے افراد کی اکثریت کچی آبادیوں اور دیہاتوں میں تیزی کے ساتھ موت کے منہ میں جارہی ہے۔
دلی کی ہمسایہ ریاست اتر پردیش بری طرح متاثر ہونے والی ریاستوں میں سے ہے۔یہاں سے سشیل کمار (فرضی نام) نے بی بی سی کو بتایا کہ انہوں نے ضلع جان پور میں اپنی والدہ کو کورونا کے باعث کھو دیا ہے۔ان کا پورا خاندان جس میں ان کی بیوی اور بیٹا بھی شامل ہیں کچھ ہی روز قبل کورونا وائرس سے صحت یاب ہوئے ہیں تاہم ان کی والدہ میں بہتری کے آثار دکھائی نہیں دیے تھے۔انھوں نے کہا کہ’’ان کا آکسیجن لیول گر رہا تھا اور میں تین روز تک ان کے لیے آکسیجن سلینڈر اور ہسپتال کا بیڈ ڈھونڈتا رہاتھا۔چوتھے روز جب میں انتہائی مجبوری کی حالت میں دوبارہ طبی مدد حاصل کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلا تو وہ گھر میں چل بسیں۔“
اتر پردیش میں آکسیجن کی قلت کے بارے میں شکایت کرنا بھی ایک جرم ہوسکتا ہے جس کے لئے حکومت شکایت کنندہ کی جائداد ضبط کر سکتی ہے۔ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ جومودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ریاست میں آکسیجن کی کوئی کمی نہیں ہے، یہ لوگوں کی اذیت کا مذاق اڑنے کے مترداف ہے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لازمی طور پر آکسیجن ری فلنگ کی اجازت دیئے گا، بصورت دیگر لوگوں کو آکسیجن نہیں ملے گی۔اس ریاست میں مریضوں کے رشتہ دار ان کے لیے ٹویٹر اور فیس بک پر آکسیجن کی اپیل کرنے پر بھی گرفتارہوئے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایسی کئی ویڈیوز موجود ہیں جن میں دیکھا جاسکتاہے کہ عام لوگوں کی کیا حالت ہے اور وہ کس طرح مررہے ہیں اور مودی سرکار پر لعنت ملامت کررہے ہیں۔ان میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح مرد،عورتیں اور بچے اپنے پیاروں کے لیے ہسپتالوں میں بیڈ کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور کیسے وائرس سے متاثر ہونے والے لوگوں کو امداباہمی کے تحت سڑکوں پر آکسیجن دینے کی کوشش ہورہی ہے لیکن ہسپتال مزید لوگوں کو داخل کرنے سے انکاری ہیں۔اس صورتحال میں کسی کے بچے مررہے ہیں تو کسی کا بھائی اور کسی کا باپ مررہاہے۔ ہر طرف موت کا راج ہے۔
سپریا شرمااپے آرٹیکل میں لکھتی ہیں کہ 8اپریل ایک معمول کا دن نہیں تھا کورونا کی وبانے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور لوگ دم گھٹنے سے مررہے تھے کیونکہ اسپتالوں میں نہ ہی بیڈ اور نہ ہی آکسیجن دستیاب تھی۔وہ مزید لکھتی ہیں کہ مودی سرکار نے وباکے پھیل جانے کے 8ماہ بعد 162آکسیجن پلانٹس کے ٹینڈر طلب کیئے تھے لیکن ان میں سے زیادہ تر پر تعمیر ہی شروع نہ ہوسکی اور اس وقت چند ایک ہی کام کررہے ہیں۔
آکسیجن کی شدید کمی کے باوجود مودی سرکارنے22اپریل تک صنعتوں کو آکسیجن کی فراہمی جاررکھی گئی حالانکہ صورتحال ملک بھر میں ہی خراب ہوچکی تھی اور آکسیجن کی واضح کمی تھی۔دہلی حکومت کے وزیراعلیٰ کجریوال نے بارہا اس حوالے سے مودی حکومت کو خبردار کیا اوربتایا کہ دہلی کو آکسیجن کی شدید کمی کا سامنا ہے۔دہلی اور دیگر ریاستوں میں ہسپتالوں میں بھی آکسیجن کے ختم ہوجانے کی وجہ سے بھی اموات ہوئیں ہیں۔
طبی ماہرین اپریل کے آغاز سے ہی خطرے کی نشاندہی کررہے تھے اور حکومت کو اقدامات لینے کا کہہ رہے تھے لیکن یہ وبا اور اس پر کنٹرول حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں تھا اس لیے حکومت نے لاک ڈاؤن کی تمام اپیلوں پر کوئی توجہ نہیں دی حتی کہ انڈین ایکسپریس نے کویڈ 19کی ٹاسک فورس کے ایک رکن کے حوالے سے لکھ کہ وہ مسلسل یہ کہہ رہے تھے کہ قومی سطح پر ایک لاک ڈاؤن لگایا جائے۔مودی سرکار نے ہر طرح سے ایسی تجویز کے خلاف مزاحمت کی تاکہ بڑے سرمایہ اور بنکوں کے منافع میں کوئی کمی واقع نہ ہو۔اس کا نتیجہ یہ نکال رہا ہے کہ اس وقت انڈیا میں لاکھوں لوگ روزانہ کی بنیاد پر اس وائرس کا نشانہ بن رہے اور ہزاروں اموات ہورہی ہیں۔
اب مودی سرکار اور بی جے پی کی ریاستی حکومتیں ایسی پالیسیوں پر عمل پیراہیں جس میں جمہوری آزادیوں پر قدغنیں لگائی جارہی ہیں۔حکومت زرائع ابلاغ کو خوفناک صورتحال کی کوریج سے روک رہی ہے۔اسی طرح چند دن پہلے فیس بک نے ریزائن مودی ہیش ٹیگ کے ذریعے مودکی تلاش کو روک دیا تھا۔بعد ازں فیس بک صارفین کی شدید تنقید کے بعد اس پابندی کو ختم کردیا گیا تھا۔مودی سرکار نے ٹویٹر سے بھی کہا تھاکہ کمبھ میلہ کے حوالے سے تنقیدی ٹویٹ کو ہٹا دئیں۔طبی ماہرین کی طرف سے انتباہ کے باوجودمودی سرکار نے اس کی اجازات دی تھی،جس کے نتیجے میں وائرس بڑے پیمانے پر پھیلاہے۔
اس بدانتظامی کے خلاف بھارتی عوام میں ایک شدید غصہ جنم لے رہاہے۔ایسے میں مودی سرکار نے فوج کو کورونا وائرس پر قابو پانے کے نام پر مزید اختیارات دیئے ہیں۔مودی سرکار کے لیے بنیادی مسئلہ کورونا وائرس اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں نہیں ہیں۔وہ فوج کو مزید اختیارات اور اس کا امیج اس لیے ابھار رہے ہیں کیونکہ ان کو خوف ہے کہ ان کی کورونا وائرس کے حوالے سے مجرمانہ غفلت کی وجہ سے اگر کوئی تحریک جنم لیتی ہے تو وہ اسے کچلا سکے تاکہ مودی سرکار سرمایہ کے مفاد میں اپنی پالیسیوں کو جاری رکھ سکیں۔
محنت کش طبقہ اور کسانوں میں مودی سرکار کی پالیسیوں کے خلاف وبا سے پہلے بھی غصہ تھا اور وبا کے عرصے میں بھی ہم نے کسانوں کا دھرنا اور محنت کشوں کی ان سے یکجہتی اور ہڑتالیں دیکھیں ہیں۔پچھلے سال دو عام ہڑتالیں ہوئیں جس میں کروڑوں ورکرز نے مودی سرکار کے سرمایہ کے حق میں پالیسیوں کے خلاف احتجاج اور دھرنے دیئے تھے۔
حکمران طبقہ موجود صورتحال میں خوف ذدہ ہے کہ نجکاری،مستقل ملازمت کے خلاف پالیسیوں،غربت میں اضافہ اور وبا کے دوران ہیلتھ سسٹم کے ٹوٹ کے بکھر جانے کی وجہ سے جوعوامی غصہ اور نفرت ہے وہ کہیں مودی سرکار اور اس کی سرمایہ کے حق میں پالیسیوں کے خلاف ایک بڑی تحریک کو جنم نہ دئے۔
مودی سرکار کو حالانکہ ریاستی انتخابات میں بری طرح سے شکست ہوئی ہے خاص کر مغربی بنگال میں جہاں انہوں نے پورا زور لگایا تھا کہ وہ الیکشن جیتتے،اسی طرح انہیں تامل ناڈو اور کیرالہ میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن یہ آسام میں الیکشن جیت پائے اور اسی طرح انہوں نے پونڈی چری میں اتحادی کے طور پر الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔
لیفٹ فرنٹ البتہ مغربی بنگال میں بری طرح ناکام ہوااور خاص طور پر ایسی اطلاعات ہیں کہ لیفٹ فرنٹ کے کارکنوں نے بی جی پی کی حمایت کی اسی طرح ماوائسٹوں نے ممتا بینر جی کی ترنمول کانگرس کی حمایت کی ہے۔
لیفٹ فرنٹ کسی طور انقلابی متبادل بننے کی کوشش نہیں کررہا ہے بلکہ اس کا سارا انحصار الیکشن کی سیاست پرہے تاکہ یہ کچھ سیٹیں حاصل کرسکے اور کہیں اتحادی کے طور پر حکومت کا حصہ بنے یا کیرالہ کی طرح ریاستی حکومت پر ہی گزار کرلے۔اسی طرح ماوائسٹ گوریلا جنگ پر یقین رکھتے ہیں اور ان کا مطمع نظر بھی ایک جمہوری فلاحی ہندوستان سے زیادہ نہیں جہاں وہ محب وطن بورژوازی اور مڈل کلاس کے ساتھ مل کراقتدار قائم کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی یہ حکمت عملی کہیں تو دیہی علاقوں میں تحریکوں کو کنٹرول اور تباہ کرتی ہے اور کہیں یہ ممتا بینرجی کی ترنمول کانگرس کی حمایت سے آگے نہیں بڑھ پاتے ہیں۔
یہ حالات ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت کے محنت کشوں اور شہری ودیہی غریب کے لیے زندہ رہنے کے لیے سرمایہ کی حدود سے آگے جانا ہوگا اس لیے آج ایک بار پھر سوشلزم زندگی کو برقرار رکھنے کا سوال بن کرسامنے آیا ہے لیکن اس کے مودی حکومت اور سرمایہ کے نظام کے خاتمے کی جدوجہد کرنی ہوگی۔اس کے ساتھ محنت کشوں کی پارٹی کی تعمیر نہایت اہم سوال ہے۔اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ آج بھارت کے انقلابی سوشلسٹوں کے لیے انقلابی محنت کشوں کی پارٹی کی تعمیر کا سوال بنیادی ہے اور اس کے لیے انہیں،مزدوروں،طلباء،عورتوں،اقلیتوں،دلت ،سماجی تحریکوں اورلیفٹ کی موجود ہ پارٹیوں میں بھی مداخلت کرنی چاہیے تاکہ بھارت ایسی محنت کشوں کی انقلابی پارٹی کے لیے جدوجہد ہوسکے جو سرمایہ کے نظام کے خاتمے اور سوشلسٹ انقلاب پر یقین رکھتی ہو۔