انقلابی سوشلسٹ موومنٹ
افغان خواتین کابل اور افغانستان کے دیگر حصوں میں طالبان مخالف مظاہروں کو منظم کرنے میں راہنماء کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ وہ کردار ادا کر رہی ہیں جو امریکہ اور اتحادی قابض افواج اداکرنے میں ناکام رہی ہیں۔یہ طالبان کے شدید جبر کے باوجود ان کے خلاف علمٰ بغاوت بلند کررہی ہیں۔طالبان نے ایک حاملہ پولیس افسر کو قتل کیا ہے اورحکومتی اجازت کے بغیر احتجاج منظم کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ ایک درجن سے زائد صحافیوں کو حراست میں لیا گیا ہے جن میں سے دو پر اتنی بری طرح سے تشدد کیا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے انہیں اسپتال میں داخل ہوا پڑا تھا۔
قابض سامراجی قوتوں کے شرمناک انخلا کے بعد سے اقتدار پر قابض طالبان نے خواتین کو حقوق کے دینے کا دعویٰ کیا ہے لیکن صحت عامہ کے شعبے سے تعلق رکھنے والی خواتین کے علاوہ تمام خواتین کو کہا گیا ہے کہ ”جب تک سیکورٹی کی صورتحال بہتر نہ ہو” کام سے دور رہیں۔ افغان خواتین یہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔یہی عذر 1990 کی دہائی کے دوران استعمال کیا گیا جب طالبان پہلی بار اقتدار میں تھے تاکہ خواتین کو سماجی زندگی میں حصہ لینے سے روکا جا سکے۔ انہوں نے ایک بار پھر خواتین پر سخت رجعتی ڈریس کوڈ نافذ کر دیا ہے جس سے حجاب اور نقاب لازمی ہو گیا ہے۔
احتجاج اور جبر
احتجاجات میں اضافہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے طالبان نے کہا ہے کہ مظاہرین کو نہ صرف وزارت انصاف سے اجازت لینی چاہیے بلکہ سیکورٹی سروسز کا احتجاج کے مقام اور وقت یہاں تک کہ بینر اور نعروں سے متفق ہونا بھی ضروری ہے۔
طالبان حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والی خواتین کو روک گیا ہے ان کو کوڑے مارے گئے اور بجلی کے ڈنڈوں سے پیٹا گیاہے۔ بظاہر احتجاج کرنے والوں پر ہوائی فائرنگ کی گئی لیکن کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہو ئے تھے۔ احتجاجی عورتوں کو جن ناموں کے ساتھ پکار گیا انھیں دہرانے میں شرم آتی ہے اورخواتین کو گھر جانے کے لیے کہا گیا ہے کیونکہ طالبان کے مطابق یہی”یہ ان کی جگہ ہے”۔ اس کے باوجود اب بھی خواتین نہ صرف طالبان بلکہ اکثر اپنے خاندان کی مخالفت کے باوجود احتجاج جاری رکھے ہوئی ہیں۔
اب تک زیادہ تر احتجاجات کی قیادت نوجوان خواتین اور مردوں نے کی ہے جن میں زیادہ تر متوسط اور تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ظاہر کرتاہے کہ سامراجی قبضے نے کس طرح افغانستان میں اربن ائزیشن عمل کو تیز کردیا ہے۔ 20 سالوں کے قبضے اور جنگ نے نوجوان افغانوں کے ایک حصے کو شہروں میں زندگی کا تجربہ دیا ہے۔اس زندگی میں محدود آزادیاں بھی ہیں جیسے کام کرنے کا حق،ان کے نزدیک طالبان کی حکمرانی کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ انہیں ایک ایسے سماج میں دھکیلنے جارہے ہیں جس کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے ہیں جس میں وہ کام کرنے اور سماجی زندگی میں حصہ لینے کی محدود”مراعات“بھی سے محروم ہو جائیں گئے۔ نوجوان افغان خاص طور پر خواتین جو شہری علاقوں میں پروان چڑھی ہیں وہ نہیں چاہتیں کہ ایسا ہو۔
اس کا اظہار افغانستان میں خواتین کی انقلابی تنظیم (راوا) کے اراکین نے 6 ستمبر کو بلخ میں ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران کیا جس میں پلے کارڈ تھے: ”ہم واپس نہیں جا رہے!” اور ”عورتیں واپس نہیں جائیں گی!”
طالبان کے قبضے سے متعلق را واکے ایک بیان نے ان کی پوزیشن واضح کر دی: ”پچھلے 20 سالوں سے ہمارا ایک مطالبہ امریکہ/نیٹو کے قبضے کا خاتمہ تھا اور اس سے بھی بہتر اگر وہ اپنے اسلامی بنیاد پرستوں اور ٹیکنوکریٹس کو اپنے ساتھ لے جائیں اور ہمارے لوگ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرسکیں۔ اس قبضے کے نتیجے میں صرف خونریزی، تباہی اور انتشار پھیلاہے۔ انہوں نے ہمارے ملک کو بدترین، غیر محفوظ، ڈرگ مافیا اور خاص طور پر خواتین کے لیے خطرناک جگہ بنا دیاہے۔
یہ مظاہروں کے ترقی پسند کردار کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان کے پاس اس وقت ملک بھر میں مضبوط حمایت کا فقدان ہو سکتا ہے لیکن دو عوامل اس کو یکسر تبدیل کر سکتے ہیں۔ اول افغانی کرنسی کی قدر میں کمی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مطلب یہ ہے کہ بیشتر افغان دو وقت کی روٹی کے لیے بھی جدوجہد کر رہے ہیں جس کی وجہ سے نظم برقرار رکھنا دن بدن مزید مشکل ہوتا جائے گا۔ دوم جیسے طالبان ملک پر زیادہ کنٹرول حاصل کر رہے ہیں، جمہوری آزادیوں پر حملے براہ راست تناسب سے بڑھ رہے ہیں، جس کے نتیجے میں سماج کی مزید پرتیں مزاحمت کی طرف آسکتی ہیں یوں طبقاتی جدوجہد کے لیے گنجائش بڑھ سکتی ہے ایسی تحریک ہی رجعت کی موجودہ حکومت کو مؤثر طریقے سے ختم کر سکتی ہے۔
متضاد جذبات
آج مزاحمت ایک افغان قوم پرست فریم ورک کے اندر خود کو ظاہر کررہی ہے۔ ایسی پرتیں موجود ہیں جو سامراجی حل سے امیدیں رکھتی ہیں۔ کچھ بین الاقوامی این جی اوز سے بھی منسلک ہیں۔ کچھ مظاہرین نے پاکستانی ریاست اور اس کی ایجنسیوں کے خلاف بھی نعرے لگائے گئے ہیں۔ان میں سے کوئی بھی وجہ افغانوں کے غصے کے پھٹ پڑنے کے امکان کو ختم نہیں کرتی ہے
”دہشت گردی کے خلاف جنگ” میں تاریخی دو ہرے کرداراوراس سے حاصل ہونے والے معاشی اور سیاسی فوائدکی وجہ سے افغانوں میں پاکستانی ریاست کے خلاف غصہ پایا جاتا ہے۔ افغان اس صورتحال کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں یہاں تک کہ عام طالبان بھی پاکستانی صحافیوں کی میڈیا کوریج کے لیے افغانستان آنے میں جو دلچسپی ہے اس پر سوال اٹھارہے ہیں حالانکہ ان کی قیادت کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
افغان معاشرے کی کچھ تہوں میں امریکی سامراج کے حوالے سے امیدوں کو اس حقیقت میں سمجھنا ہوگا کہ اس قبضے نے شہری عورتوں کو اپنی ضروریات کے مطابق نئی زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیئے تھے۔ بین الاقوامی این جی اوز نے روزگار کے مواقع فراہم کیے اور اس طرح افغان خواتین کے لیے گھر کی حدود سے باہر زندگی کا امکان پیدا ہواتھا۔
جہاں تک افغان قوم پرستی کا تعلق ہے، یہ کوئی واحد اوریکتا جذبات نہیں ہیں۔ ایک طالبان کی نئی ابھرتی ہوئی قوم پرستی ہے اور دوسری طرف غنی کی امریکہ پر انحصار کرنے والی قوم پرستی ہے۔ تو سماج کے ایک چھوٹے مگر ترقی پسند طبقے کے جذبات بھی ہیں جو ان دونوں سے کوئی بھی امید نہیں رکھتے ہیں۔ اس کے بجائے یہ ایک ایسے افغانستان کودیکھتے ہیں اور اس کے لیے جدوجہد کرتے ہیں جہاں ملک میں دولت پیدا کرنے والے مزدوروں اور غریب کسانوں کی حکومت ہو۔ اگر افغانستان میں طالبان مخالف تحریک بڑھتی ہے تو اس چھوٹی قوت کو خود کو تعمیر کرنے کا موقع ملے گا ایک ایسے علاقے میں انقلابی متبادل کے دروازے کھل سکتے ہیں جو سامراجیوں اور قومی بورژوا قیادت کی پالیسیوں کی وجہ سے کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔
اگر ایسی طالبان مخالف مزاحمت خود کو برقرار رکھ سکی تو یہ دنیا کو انقلابی قوت کی طاقت دکھاسکے گی۔ سامراجی طاقتیں طالبان کو شکست نہیں دے سکیں اور ان کے ساتھ معاہدے کرنے پر مجبور ہو گئیں اور انہیں افغانستان میں مؤثر طریقے سے اقتدار میں لایا گیا۔ اب یہ خود افغان ہیں جو طالبان کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ یہ لبرلز کی خوشنما کہانیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے یعنی ان کا یہ یقین تھا کہ طالبان کی رجعت صرف غیر ملکی سامراجی مداخلت سے ہی شکست کھا سکتی ہے کیونکہ افغانستان کے لوگوں میں طالبان اور جنگجوؤں کا سامنا کرنے کی صلاحیت یا طاقت نہیں ہے۔ موجودہ تحریک سامراجی اور بنیاد پرست دونوں کی رجعت کے خلاف امید کی کرن ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ واقعی کون ثابت قدم ہے اور آزادی کی جنگ لڑرہا ہے۔
سماج پر کنٹرول
احتجاجی مظاہرے طالبان کی حکمرانی میں سامنے آ نا اس حقیقت کو ظاہرکرتا ہے کہ وہ ابھی تک ملک پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں کرپائے۔ شدید جبر کے باوجود ان کی پابندیوں کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں طالبان کو اپنے دفاع میں طالبان کے جھنڈے اٹھائے یونیورسٹیوں میں پردہ دار خواتین کے ذریعے جوابی احتجاج کرنا پڑاہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کم از کم ابھی تک اس طرح حکمرانی نہیں کرپارہے جیسا کہ انہوں نے 1990 کی دہائی میں کی تھی۔ یہ جوابی مظاہرے طاقت کے ذریعے تمام اپوزیشن کے دبانے کی بجائے رجعت کے نفاذ کے لیے ایک سماجی جواز پیدا کرنے کی کوشش ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ جس کا اہم عنصر وار لارڈز کی وفاداری ہے۔ انہوں نے شاید ابھی طالبان کی حکمرانی کو قبول کیا ہے لیکن اس طرح کی وفاداریاں متضاد مفادات کے وقت میں بدل جاتی ہیں۔ اسی طرح طالبان کے دھڑوں میں لڑائی کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس طرح کے عوامل طالبان کی حکومت کو کس حد تک کمزور اور غیر مستحکم کر سکتے ہیں اس کا انحصار زیادہ تر چین کے کردار پر ہے۔ چینی سامراج اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ساتھ طالبان کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنا اپنے مفاد میں سمجھتاہے اور امریکی انخلا اسے خطے میں زیادہ طاقتور کھلاڑی کے طور پر ابھار دیا ہے۔
لیگ فار دی ففتھ انٹرنیشنل افغانستان میں خواتین کی قیادت میں ابھرتی ہوئی تحریک کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتی ہے۔ یہ ابھرتی ہوئی تحریک اس وقت منقسم، کمزور اور اس کا کثیر طبقاتی کردار ہے جس میں کچھ سامراج نواز اور متوسط اور اعلیٰ طبقے کے عناصرموجود ہیں۔ اس کے باوجود یہ لاکھوں پریشان افغانوں کو امید فراہم کرتی ہے جو سامراجی قبضے سے تھکے ہوئے ہیں بلکہ غنی کی پسند کی پالیسیوں اور طالبان کے رجعت کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں 80 فیصد آبادی بے روزگار ہے یا نیم روزگار رکھتی ہووہاں ایسی تحریک وقت کی ضرورت ہے۔
افغانستان میں انقلابیوں کو اس تحریک کی تعمیر کرنی چاہیے اور مسلسل انقلاب کے پروگرام کے لیے اس کی اعلیٰ اور باشعوحصے کو جیتنا چاہیے۔ بنیادی جمہوری آزادیوں کی لڑائی میں جیسے کہ کام کرنے کا حق اور خواتین کے لیے سماجی زندگی میں حصہ لینا ممکن بناناہے۔یہ حکمت عملی مزدوروں اور کسانوں کی تنظیموں کی تعمیر کے لیے جدوجہد کرتی ہے جو نہ صرف طالبان کو شکست دے سکتی ہے بلکہ ان حقوق کی ضمانت بھی دے سکتی ہے۔ ان جمہوری حقوق کی حفاظت صرف ایسی حکومت کر سکتی ہے جو ملک بھر میں اقتدار سنبھالنے والی ایسی تنظیموں پر مبنی ہو۔
افغان انقلابیوں کو افغانستان میں اس طرح کے انقلاب کے لیے جدوجہدکے پروگرام کی بنیاد پر خود کو منظم کرنا چاہیے – جو کسی بھی سامراجی طاقت پر کوئی امید نہیں رکھتا ہو چاہے وہ امریکہ ہو، چین یا روس ہو۔ یہ آج کے احتجاج یا ملک میں مستقبل کی کسی بھی تحریک میں مداخلت کے لیے اہم ہوگا۔ افغان مزدوروں، غریب کسانوں، خواتین اور قومی اقلیتوں کی دوست وہ سامراجی طاقتیں نہیں ہیں جو ملک میں تباہی مچانے کے بعد انہیں بے یارومددگار چھوڑ کربھاگ گئیں ہیں۔
یہ پاکستان، ایران، ترکمانستان، تاجکستان، ازبکستان اور چین کے مزدور ہیں جو افغان مہاجرین کے استقبال کے لیے اپنے ملکوں میں جدوجہد کرئیں۔ یہ برطانوی، امریکی، جرمن اور فرانسیسی محنت کش ہیں جنہیں نہ صرف افغان مہاجرین کے استقبال کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے بلکہ اپنی حکومتوں کو افغانستان پر پابندیاں لگانے سے روکناہوگا اور ملک کی تعمیر نو کے لیے تلافی ادا کرنے کے لیے بھی جدوجہد کرنی ہوگی۔