کراچی میں کلیسائی فسطائیت کا حملہ؛ سندھی لاپتہ افراد کے لواحقین اور ڈاؤ کے طلباء کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں

Posted by:

|

On:

|

,

سوشلسٹ ریزسٹنس رپورٹ

ستمبر13 کو کراچی میں مسلح مذہبی انتہا پسند تنظیموں نے کھل کر کلیسائی فسطائیت کا مظاہرہ کیا اور سندھی لاپتہ افراد کے لواحقین اور ڈاؤ کے طلباء کو مار پیٹ اور تشدد کا نشانہ بنایا۔

ڈاؤ کے بوائز ہاسٹل کا معاملہ کم از کم دو ماہ سے چل رہا ہے۔ سندھ حکومت نے ان طلباء کے ہاسٹل کی عمارتیں آئی پی ایم آر نامی نئے ڈیپارٹمنٹ کے حوالہ کرنے کا فیصلہ کر لیا یے۔ اس وقت دیہی سندھ اور دیگر اطرافی علاقوں سے طب کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئے ہوئے طلباء ہاسٹل کی ایک عمارت میں رہائش پذیر ہیں مگر امکان ہے کہ جلد انہیں وہاں سے بےدخل کر دیا جائے گا۔ پچھلے دو ماہ میں کئی بار طلباء احتجاج کر چکے ہیں مگر نااہل سرکار کو کوئی فرق نہ پڑا۔ بالآخر تنگ آ کر طلباء نے کراچی پریس کلب کے باہر 13 ستمبر کو احتجاج اور بھوک ہڑتالی کیمپ لگانے کی کال دی۔

سندھی مسنگ پرسنز کے لواحقین کا کیمپ بھی وہیں پریس کلب کے باہر لگا ہوا ہے۔ ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ان کے پیاروں کو بازیاب کیا جائے۔ دیگر بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین بھی اس کیمپ کا حصہ ہیں۔ 13 ستمبر کو اپنے کیمپ کے سامنے ان نہتے سندھی بلوچ افراد نے مظاہرہ کیا۔

دوسری جانب جمعیت اہلحدیث، سپاہ صحابہ اور دیگر مذہبی انتہا پسند تنظیموں نے پریس کلب کی سڑکیں بند کر دیں یہ کہہ کر کہ صحابہ کی ناموس کے تحفظ کے لیے ان کی ریلی آ رہی ہے۔ جب وہ ریلی آنا شروع ہوئی تو انتہاء پسند مدرسوں سے نکلی اس کلیسائی فسطائیت کی فوج نے ڈاؤ کے طلباء کے پر امن کیمپ کا رخ کیا۔ وہاں طلباء ہاسٹل کی بحالی کے لیے نعرے لگا رہے تھے تو ان کو کہا گیا کہ یہ تعلیم کی بکواس بند کرو اور یہاں سے جاو کیونکہ ہم یہاں دین کی بات کر رہے ہیں۔ طلباء نے بتایا کہ یہ بھوک ہڑتالی کیمپ ہے اور اس طرح اٹھ کر نہیں جا سکتے البتہ انہوں نے نعرے نہ لگانے کی حامی بھر لی۔ اس کے باوجود ایک نہایت جذباتی مشتعل نوجوان لڑکا آگے بڑھا اور معاملہ کی جانچ کئے بغیر اس نے ڈاؤ کے ایک طالب علم کو مارا۔ یہ ڈاؤ کے طالب علم ہمارا مستقبل ہیں، کل کو یہی مارنے والا مدرسے کا لڑکا اگر بیمار ہو گا تو اس کا علاج عین ممکن ہے کہ یہی ڈاؤ کے طلباء کریں گے مگر وہ نوجوان کلیسائی فسطائیت کی تربیت کے نشہ میں اس قدر دھت تھا کہ اسے ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں تھا، اسے بس سڑکوں پر اپنی طاقت، برتری اور غنڈہ گردی کا اظہار کرنا تھا۔

بہر کیف، ڈاؤ کے طلباء پر یہ بیہودہ حملہ کرنے کے بعد کلیسائی فسطائیت کی قوتوں نے سندھی مسنگ پرسنز کے مظاہرے کا رخ کیا۔ انہوں نے احتجاج کرنے والے نہتے مردوں، عورتوں اور بچوں کو بری طرح مارا، ان کے کیمپ کا ٹینٹ تک اکھاڑ پھینکا، لاپتہ افراد کی تصویریں جن پلے کارڈز پر آویزاں تھیں ان پلے کارڈز کو آگ لگائی اور عورتوں کے سروں سے چادریں کھینچی۔ اس تمام تر غنڈہ گردی کی ویڈیو ڈاؤ طلباء کے کیمپ میں بیٹھی خواتین ساتھیوں نغمہ شیخ اور منرویٰ طاہر نے بنائیں اور مولویوں نے اس بات پر ان خواتین کو آ کر دھمکایا کہ یہ ویڈیوز بنانا بند کرو اور یہاں سے آپ دونوں فوراً چلی جائیں ورنہ اب ہم آپ کو ماریں گے۔ خواتین ساتھیوں نے پریس کلب کے اندر پناہ لی کیونکہ ان مذہبی دہشتگردوں کا پسندیدہ مشغلہ عورتوں کو مارنا پیٹنا اور تشدد کرنا ہوتا ہے۔ ایک دو گھنٹے تک مدارس سے تربیت یافتہ یہ انتہاء پسندوں فوج گلے پھاڑتی رہی اور اہل تشیع کے خلاف زہر اگلتی رہی اور پھر اپنا تام تبوڑا سمیٹ گھر گھر کو نکل لی۔

ان پرتشدد انتہاء پسندوں کے جانے کے بعد لاپتہ افراد کے لواحقین نے ایک بار پھر تمام تر ہمت و جذبہ کے ساتھ احتجاج کیا۔ ڈاؤ کے طلباء نے بھی ٹینٹ اور بینر لگا کر باقاعدہ کیمپ کا آغاز کیا۔

یوں تو بنیادی جمہوری حقوق کا مطالبہ کرنے کے لئے اگر چار لوگ بھی پریس کلب پر آکر احتجاج کرتے ہیں تو کم از کم ایک پولیس موبائل وین تعینات کی جاتی ہے اور اپنا حق مانگنے والوں کی تصاویر بنانے کے لئے کم از کم چار افراد سادہ کپڑوں میں لازمی موجود ہوتے ہیں۔ مگر جس دن کلیسائی فسطائیت کی دہشتگردی کا کھل کر اظہار ہو رہا تھا اس دن پولیس وین بھی غائب تھی اور یہ ساری کپڑوں والے ایجنٹ بھی۔ وہ الگ بات ہے کہ انتہاء پسندوں کی واپسی کے بعد چار کے بجائے چھ سادہ کپڑوں والے افراد نہتے طلباء اور لاپتہ افراد کے لواحقین کی تصاویر بنانے پر فوری معمور کر دئے گئے۔ ریاست کا کردار اس سب سے واضح ہے۔ ریاست نے کلیسائی فسطائیت کے ڈنڈہ اور اسلحہ بردار غنڈوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ جہاں چاہیں اپنا تماشہ لگا لیں اور لوگوں پر تشدد کریں۔ دوسری جانب ریاست حقوق مانگنے والے نہتے شہریوں سے اس قدر خوفزدہ ہے کہ ان پر تشدد کرنے کے لئے اپنے مسلح دستے بھی تعینات کرتی ہے اور ان کی باقاعدہ پروفائیلنگ بھی کرواتی ہے۔ اس سب سے واضح ہے کہ ریاست کس حد تک گل سڑھ چکی ہے، اس کی بنیادیں کس قدر کھوکھلی ہوتی جا رہی ہیں کہ ایک طرف اسے عوام کے خلاف اپنے مسلح دستوں کو حرکت میں لانا پڑتا ہے تو دوسری طرف اب اسے ان کلیسائی فسطائیت کے سپاہیوں کا سہارا بھی لینا پڑ رہا ہے۔ یہ واضح ہے کہ نظام کا بحران اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ تمام تر مصنوعی طریقہ کار جو معیشت کی حرکت کو فروغ دینے کے لیے بروئے کار لائے جاتے تھے وہ بھی اب کام نہیں کر رہے۔ حکمران طبقہ کے لئے پہلے کی طرح عوام پر راج کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں محنت کش اور مظلوم اقوام نظام کے خلاف حرکت میں آ رہے ہیں۔ ریاست ان کے حوصلوں کو پست کرنے میں ناکام ہے اسی لئے کبھی لسان تو کبھی مذہب تو کبھی فرقہ کا چورن بیچنے کی کوشش کرتی ہے اور اب آخری حربہ کے طور پر درمیانے طبقے کی اس سب سے زیادہ رجعتی پرت کو منظم کر رہی ہے جسے کبھی بھی محنت کش طبقہ میں مقبولیت نہیں ملتی ہے۔ رجعت کے اس مسلح پیکر کے خلاف لڑائی لڑنے کے لئے ہمیں محنت کش عوام کی طاقت پر انحصار کرنا ہوگا اور انہیں سوشلسٹ انقلاب کے پروگرام کے تحت منظم کرنا ہوگا۔ آخری فتح ہماری ہی ہوگی کیونکہ کل کے واقعات نے دکھا دیا کہ جن کے مسائل حقیقی ہیں وہ شام کو دل کے خوش کرنے کو احتجاج کر کے ہلہ گلہ کر کے گھر گھر کو نہیں نکلتے، وہ بدترین تشدد سہہ کر بھی میدان چھوڑ کر نہیں جاتے اور اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہیں۔